سوال (3712)
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ. [سنن ابن ماجه: 1390]
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
ضعیف ہے، یہ روایت جمیع اسانید وشواہد کے ساتھ معلول ومنکر ہے، جس نے بھی اسے حسن قرار دیا تو کثرت اسانید کے سبب دیا ہے جو کہ مرجوح ہے، اس رات کی فضیلت میں کوئی آیت و صحیح حدیث موجود نہیں ہے، اس رات کو کوئی خاص اہتمام نہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ ہی صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے، ائمہ محدثین و نقاد ہر روایت کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیتے تھے بلکہ وہ قرائن کی بنیاد پر قبول ورد کرتے تھے، یہ روایت صحیح مسلم کی حدیث کے مخالف ہے، اس رات کی فضیلت میں ثقات حفاظ نے کوئی روایت بیان نہیں کی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
اس حوالے میری ایک گذارش ہے کہ اگر کثرت طرق کی بنیاد پر اگر کسی روایت کو حسن سمجھا جائے تو پھر اس روایت
“مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ”
کو بھی حسن سمجھا جائے، میرے علم کے مطابق امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی چار سندیں ہیں، چاروں ضعیف ہیں، امام ترمذی رحمہ اللہ کثرت طرق کی بنیاد پر روایت کو حسن قرار دیتے ہیں، لیکن یہ اس کا تفرد ہے، لہذا شب برات کے بارے میں اگر تمام روایات ضعیف ہی ہیں تو مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
امام ترمذی کے حوالے سے جو بات آپ نے شیخ فرمائی، اس کی توضیح فرما دیجیے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
یہ تو عام بات ہے، یہ آپ کو مصطلح کی چھوٹی چھوٹی کتابوں میں مل جائے گی کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن کی اصطلاح عام محدثین سے مختلف ہے، امام ترمذی رحمہ کے نزدیک ہر وہ حدیث جس کی سندیں متعدد ہوں، وہ حسن ہے، لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حسن کو قابل حجت قرار نہیں دیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
جزاکم اللہ خیرا
اصل میں یہی بات مقصود تھی کہ آیا وہ اسے حجت بھی سمجھتے ہیں، جیسا کہ متاخرین نے مراد لے لیا اور حسن کے معنی کو ایک ہی تعریف میں منحصر قرار دے کر امام ترمذی کو متساہل بھی بنا دیا اور ان کے اس موقف کو تفرد بھی کہہ دیا، حالانکہ حسن کے متقدمین کے ہاں کئی معانی ہیں اور امام ترمذی اس اصطلاح کے استعمال میں متفرد نہیں ہیں۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ