سوال (1560)

شیخ محترم ایک ہی علاقے میں ، ایک ہی بندے کی متعدد غائبانہ نماز جنازہ ہو سکتی ہے؟
شیخ محترم صحیح البخاری میں جو خادمہ والا واقعہ ہے وہ اس کی دلیل بن سکتی ہے؟

جواب

دو مسئلے ہیں:
1۔ ایک سے زیادہ جنازے پڑھنا.
یہ تو جائز ہے، اور خادمہ والا واقعہ بھی اسی کی دلیل ہے کہ اس کا ایک بار جنازہ پڑھا جا چکا تھا، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کا جنازہ ادا کیا.
2۔ دوسرا مسئلہ ہے غائبانہ نماز جنازہ، تو اگرچہ اختلافی مسئلہ ہے، لیکن معتدل موقف یہ ہے کہ یہ جائز ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کا نماز جنازہ ادا کیا تھا، البتہ اس کو عادت بنالینا درست نہیں کیونکہ ہر ایک کا غائبانہ نماز جنازہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور عادتِ مبارکہ نہیں تھی۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں:

«وَلَمْ يَكُنْ مِنْ هَدْيِهِ وَسُنَّتِهِ صلى الله عليه وسلم الصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مَيِّتٍ غَائِبٍ فَقَدْ مَاتَ خَلْقٌ كَثِيرٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ غُيَّبٌ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ». [زاد المعاد – ط الرسالة 1/ 500]

’ہر میت کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور عادت مبارکہ نہیں تھی، کیونکہ بہت سارے مسلمان مختلف جگہوں پر فوت ہوئے لیکن آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی‘۔
اس حوالے سے اہل علم نے لکھا ہے کہ جس مسلمان شخصیت کا معاشرے میں علمی، سیاسی اور رفاہی طور پر اثر و رسوخ اور مقام ہو، اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی رضی اللہ عنہ کے لیے کیا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر حاضرانہ جنازہ ایک سے زائد مرتبہ پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ اوپر گزرا تو غائبانہ کا بھی وہی حکم ہے۔ اور پھر اصل یہ ہے کہ اہل علاقہ تمام براہ راست حاضرانہ جنازہ میں شریک ہوں نہ کہ اپنی اپنی جگہ پر الگ الگ غائبانہ کروائیں، لیکن پھر بھی اگر کسی وجہ سے تمام لوگ ایک ہی جگہ جنازہ میں شریک نہ ہو سکے ہوں تو وہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ