متکلمِ اسلام ڈاکٹر ذاکرنائیک — ایک نابغہ روزگار شخصیت

حامداً ومصلیاً و مسلماً

قال اللہ تعالیٰ: “وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ”۔ (المنافقون: 8)

ترجمہ: حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔

مسلمانوں کے زوال اور انحطاط سے جہاں بہت سے علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہے وہاں سب سے بڑا خسارہ علمی، تعلیمی و تحقیقی شعبے میں ہوا۔ دنیا پر اس کی عسکری برتری جہاں ختم ہوئی وہاں تہذیبی و ثقافتی گرفت بھی ہاتھ سے جاتی رہی کبھی تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمان نمایاں نظر آتے تھے اور ان کے ذکر کے بغیر بات ادھوری اور نا مکمل رہتی تھی۔ مگر آج مسلمانوں کا نام لینے سے لوگ خوف زدہ ہیں ۔ یہ صورت حال دو چار دنوں، ہفتوں، مہینوں یا برسوں میں نہیں ہوئی بلکہ اس پر صدیاں لگیں۔ صلیبی جنگوں کے بعد برطانوی استعمار نےرہی سہی کسر نکال دی ۔ اس کھیل کے مکروہ کردار وہ منافق مسلمان بنے جو دین و ملت فروش تھے۔ آج کا مسلمان بدترین غلامی و ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

تاریخی اعتبار سے یہ بات مسلّمہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی دوسری قوم پر مسلط ہوتی ہے تو وہ نہ صرف ان کی سرزمین کے مالک بنتے ہیں بلکہ ان کے وسائل پر بھی قابض ہوتے ہیں۔ ان کی زبان ، تہذیب، رہن سہن، عادات، خیالات و نظریات بھی بدل دیتے ہیں۔
ملکہ سبا نے کہا تھا:

“إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً”۔ (النمل: 34)

ترجمہ: اس نے کہا بے شک بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں اسے خراب کردیتے ہیں اور اس کے رہنے والوں میں سے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔

آج پوری اسلامی دنیا ان کی چرا گاہ بنی ہوئی ہے۔ اسلام کی اصل میراث اس کا علم ہے۔ جو قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ وراثت بھی ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ چند علماء کرام بطورِ نمونہ باقی ہیں ۔ باقی سب مصنوعی (Artificial) ہیں۔علم کے باب میں جو کمزوریاں آگئی ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ اسلام کے بارے میں ہم نئی تحقیق سے دنیا کو کیا آگاہ کرتے ؟ ہم اس کا دفاع کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے!

اسلام کے خلاف ایک یلغار ہے جو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں سے اس میں شدت پیدا ہوئی۔ اسلام کی آسمانی کتاب قرآنِ حکیم میں شکوک و شبہات پیدا کیےگئے۔ اسے آسمانی کتاب ماننے کی بجائے انسان کی تخلیق قرار دے دیا گیا۔ احادیث کے بارے منکرین کی جماعت کھڑی کر دی گئی۔ نوجوان طبقے کو الحاد اور گمراہ کن عقائد کی وادیوں میں دھکیل دیا۔ اور آج کا مسلمان لاوارث ہوکر رہ گیا۔

لیکن، یا للعجب!
اللہ تعالیٰ کا بھی نظامِ فطرت ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ دین کی حفاظت اپنے پسندیدہ بندوں کے ذریعے کرتا ہے ۔ سابقہ ادوار میں بھی نامور شخصیات میدان عمل میں آئیں ۔ کون نہیں جانتاکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جنہوںنے اپنے وقت میں ایک پوری ریاست کا کام کیا۔ انہوں نے تاتاریوں کے خلاف میدانِ جہاد میں جم کر مقابلہ کیا اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔ سرحداتِ ریاستِ اسلامیہ کی حفاظت کی۔ اسی فکری محاذ پر معتزلہ اور دیگر باطل فرقوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ مبادیاتِ اسلام کا مکمل تحفظ کیااور اسلامی عقائد و عبادات میں بدعات وخرافات کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں مجددِ اسلام کا خطاب بھی دیتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے قرآن وحدیث کی بنیاد پر اسلام کی تجدید کی اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق لوگوں کی اصلاح کی۔

اسی طرح فضیلۃ الشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ الله نے بھی عرب سرزمین پر پھیلنے والی خلافِ اسلام رسم و رواج اور قبر پرستی کے خلاف آواز بلند کی اور علمی دعوتی طریقے سے اس کا قلع قمع کیا ۔ آج بھی ان کی تجدیدی مساعی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی جب مغل حکمران اکبر نے دینِ الٰہی کا تصور پیش کیا تو شاہ ولی اللہ محدث دھلوی اور الشیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ نے مجاہدانہ کردار ادا کیا اور باطل نظریات کے سامنے بند باندھ دیا۔ بر صغیرمیں جب ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کا فتنہ اٹھا تو اس کے خلاف بھی مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے پوری امتِ مسلمہ کی طرف سے مقابلہ کیا اور پوری قوم کو اس کی شرانگیزی سے آگاہ کیا ۔ قدم قدم پر اسے شکست سے دوچار کیا۔ آخر کا رقیامِ پاکستان کے بعد انہیں غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

آج پھر امت مسلمہ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف جنگ مسلط کی گئی ہے۔ افغانستان ،عراق ،شام ،لیبیا اور فلسطین میں آگ اور خون کے دریا بہا دیے گئے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں میں نام نہاد دانشور کھڑے کیے گئے جو مسلمان نوجوانوں کو اسلام سے بدگمان کر رہے ہیں۔ الحاد کے علاوہ اسلامی عقائد و عبادات میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن الله تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی ملاحظہ فرمائیں کہ ان تمام افراد کو جو خلافِ اسلام مہم چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محترم جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کو ان کے لیے برہنہ تلوار بنا کر بھیجا ہے۔ پوری دنیا ان کی کارکردگی سے آگاہ ہے کہ کس طرح انہوں نے اسلامی عقائد و عبادات اور قرآنِ حکیم پر اٹھائے جانے والے سوالات کے شافی جوا بات دیے ہیں۔ تقابلِ ادیان پر سیر حاصل گفتگو سے غیر مسلموں کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ پر ہزاروں لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ اپنی گفتگو کو قرآن و حدیث تک محدود رکھ کر اپنا موقف ہمیشہ قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ کسی اور چیز کا سہارا نہیں لیتے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں میں پائی جانے والی بدعات و خرافات کا بھی رد کرتے ہیں اور دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا اسلام سےقطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو بدعات و خرافات کے دلدادہ ہیں، جن کی روزی روٹی اس پر چلتی ہے وہ جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے نالاں و نا خوش ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی پاکستان آمد پر طرح طرح کی بولیاں بول رہے ہیں۔ انہیں مناظرے کا چیلنج دے رہےہیں۔ یہ اسلام کے ناداں دوست یہ بھی نہیں جانتے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف مسلکی مناظر نہیں ہیں بلکہ وہ تقابلِ ادیان کے ماہر ہیں اور غیر مسلموں کے ساتھ مناظرہ کرتے ہیں ۔ اسلام کے خلاف اعتراضات پر مدلل جوابات دیتے ہیں۔جب کہ یہ لوگ اپنی کم علمی اور نہ سمجھی سے ڈاکٹر صاحب کے بارے غلط فہمی کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب امتِ مسلمہ کے محسن ہیں۔ اور پوری امت کی طرف سے متکلمِ اسلام کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ بلکہ یہ صحیح معنوں میں حجۃ الاسلام ہیں ۔ وہ اکیلے ہزاروں لوگوں پر بھاری ہیں ۔ بلا خوف و خطر پوری دنیا کے چیلنجز کا سامنا اکیلے کر رہے ہیں۔

لیکن افسوس پاکستان میں خاص مسلک کے بڑے بڑے مفتیانِ کرام حقیقت جانتے ہوئے بھی صرف اپنی قوم اور بعض اَن پڑھ مولویوں کے خوف سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پروگرام کے بائیکاٹ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

محترم جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات 1997-98سعودیہ حج کے موقعہ پر ہوئی جب ہم رابطہ العالم الاسلامی (World Muslim League) کی خصوصی دعوت پر مہمان تھے۔ اگرچہ اس و قت ڈاکٹر صاحب کو عالمی شہرت حاصل نہ تھی۔ لیکن ان کی تقابلِ ادیان پر گفتگو بہت دلچسپی سے سنی جاتی تھی۔ رابطہ العالم الاسلامی کے کیمپ منیٰ میں ان کے بہت لیکچرز ہوئے جو انگریزی زبان میں تھے۔ اس کے بعد وہ دن بدن شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

بہرحال وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے جملہ منتظمین اور اس سے منسلک جامعات و مدارس کے ناظمین، اساتذہ اور طلبہ ڈاکٹرذاکر نائیک صاحب کی پاکستان آمد پر بےحد مسرور ہیں ۔ اور انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی عزت و و قارمیں اضافے کا باعث ہونگے۔ اور ان کی عالمانہ فاضلانہ گفتگو سے دنیا مستفید ہوگی۔ ہماری پاکستانی عوام سے بھرپور درخواست ہے کہ وہ ان نام نہاد پیروں اور مولویوں کی باتوں میں نہ آئیں اور ڈاکٹر صاحب کے اجتماعات میں بھر پور شرکت کریں۔

کالم: فضیلۃ الشیخ پروفیسر چودھری محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ
ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس السلفیۃ پاکستان

یہ بھی پڑھیں: امام مسلم کی کتاب التمییز کی شرح فتح العزیز کا تعارف