سوال
علمائے کرام سے ایک سوال ہے کہ معتکف کا جنازے میں شرکت کرنے کے لیے مسجد سے باہر جنازگاہ جانا کیسا ہے؟ اگر جنازگاہ قریب ہو اور وہ جنازہ پڑھ کر فورا واپس آجائے تو کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟
اگر وہ اعتکاف توڑ کر جنازہ میں شرکت کرتا ہے کیونکہ فوت ہونے والا اسکا قریبی رشتہ دار ہے اور پھر وہ دوبارہ اعتکاف کی نیت کرکے اعتکاف بیٹھ جاتا ہے تو کیا یہ صورت جائز ہوگی؟
اس صورت میں اعتکاف توڑنے پر معتکف گناہ گار تو نہیں ہوگا؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
معتکف کے لیے بلا ضرورت مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر جنازہ مسجد میں ہو تو وہ جنازے میں شرکت کر سکتا ہے۔ کیونکہ معتکف صرف حاجات لازمہ کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے، جیسے قضائے حاجت کا انتظام اگر مسجد میں نہ ہو تو وہ اس کے لیے باہر جا سکتا ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:
“السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ”. [سنن أبی داؤد: 2473]
’’معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ مریض کی عیادت کو نہ جائے ‘ جنازے میں شریک نہ ہو ‘ عورت سے مس نہ کرے اور نہ اس سے مباشرت ( صحبت ) کرے اور کسی انتہائی ضروری کام کے بغیر مسجد سے نہ نکلے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“كَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ، إِذَا كَانَ مُعْتَكِفًا”. [صحیح البخاری: 2029]
’’حضور ﷺ جب معتکف ہوتے تو بلا حاجت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے‘‘۔
جنازہ پڑھنا اس کی کوئی لازمی ضرورت نہیں ہے۔ جنازہ فرض کفایہ ہے اس کے لیے مسجد سے باہر جانا درست اور جائز نہیں ہے۔
اگر وہ اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر جا کر جنازے میں شرکت کرتا ہے تو وہ گناہ گار تو نہیں ہوگا لیکن اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا اور رمضان میں دس دن والا مسنون اعتکاف قائم نہیں رہے گا۔ اگرچہ وہ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے اور دوبارہ اعتکاف بیٹھ جائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ