متقدمین علما کی سوانح حیات میں اساتذہ کی تعداد سینکڑوں یا ہزاروں میں دیکھ کر بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ امام بخاری، ابو داود، یعقوب بن سفیان الفسوی، وغیرہ بے شمار علما کی سیرت میں ملتا ہے کہ انھوں نے ایک ہزار مشایخ سے علم حاصل کیا۔

امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ہزار اسی علما سے علم حاصل کیا ان میں سے ہر کسی کا منہج یہ تھا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ علم حاصل کرنے سے پہلے اپنے استاد کے منہج کو بھی دیکھتے کہ کہیں وہ بدعتی تو نہیں۔
ابن مندہ رحمہ اللہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے تیس ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ (سیر اعلام النبلاء، 17/35)

مشایخ کی یہ کثرت تعداد کوئی محال اور نا قابل امر نہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ وہ علم حاصل کرنے کے لئے بیتاب رہتے اور اس کے لئے اساتذہ کی طرف سفر کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ کہیں پر بھی کسی اہل علم کی خبر ملتی رخت سفر باندھنے میں دیر نہ کرتے۔

دوسری بات یہ کہ ان کی اصطلاح میں ہر وہ شخص استاد ہے جن سے انھوں نے کسب فیض کیا ہو، کوئی علم سیکھا ہو، گرچہ ایک شعر یا کوئی قصہ ہی کیوں نہ ہو۔ استاد محترم شیخ صالح العصیمین حفظہ اللہ نے اپنے کئی دروس میں یہ بات بتائی ہے۔

 فاروق عبد اللہ نراین پوری