سوال (3974)

شیخ اس کے بارے میں بتائیں کہ یہ صحیح ہے جائز ہے، “Mutual fund” ایک ایسا سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے، جہاں بہت سے لوگ اپنا پیسہ اکٹھا کرتے ہیں، اور ایک تجربہ کار مینیجر اس رقم کو مختلف شیئرز، بانڈز یا دوسرے اثاثوں میں لگاتا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو خود اسٹاک مارکیٹ کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ماہرین آپ کی طرف سے سرمایہ کاری سنبھالتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہے، جیسے آپ اور آپ کے دوست مل کر ایک بڑی ڈش بناتے ہیں، ہر کوئی تھوڑا تھوڑا پیسہ ڈالتا ہے، اور پھر سب مل کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر مارکیٹ اوپر جائے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے، اور اگر نیچے آئے تو نقصان بھی سب کو بانٹنا پڑتا ہے، یہ طویل مدتی سرمایہ کاری ہے، خاص طور پر اگر آپ بغیر کسی محنت کے اپنا پیسہ بڑھانا چاہتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ میوچل فنڈز کے طریقہ کار کا خلاصہ یہ ہے کہ:
انویسٹر بطور مؤکل کے اپنی رقم فنڈز والوں کو پیش کرتا ہے۔ فنڈز والے انویسٹر کی رقم اور اس کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔
فنڈز والے اس کی رقم کو بطور وکیل کے کل پانچ مدات میں لگاتے ہیں:
(1) اسٹاک ایکسچینج
(2) اسلامی بینکوں کے منافع بخش اکاؤنٹس
(3) گورنمنٹ کے صکوک
(4) پرائیویٹ کمپنیوں کے صکوک
(5) سونا اور چاندی کی مارکیٹ
اس خدمت کے عوض یہ ادارے فیس وصول کرتے ہیں۔
ان اداروں میں سرمایہ کاری کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اسلامی بینکو ں کے منافع بخش اکاؤنٹس، اور صکوک میں سرمایہ کاری کرنادرست نہیں، اس لیے کہ اس میں ایسے طریقوں اور حیلوں کو استعمال کیا جاتا ہے جن کو اسلامی کہنا یا سود سے پاک کہنا درست نہیں۔
البتہ پہلی مد جس میں کہ یہ ادارہ اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرکے شیئرز کی خرید و فروخت کرتا ہے، اس میں کاروبار کرنے کے لیے شیئرز کے کاروبار کے سلسلے میں جو شرائط بیان کی جاتی ہیں ان کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔
جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، وہ درج ذیل ہیں :
1) جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود آچکا ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو؛ یعنی اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی نے اپنے کچھ جامد اثاثے بنا رکھے ہوں، جیسے کمپنی کے لیے بلڈنگ بنالی ہو، یا زمین یا مشینری خرید لی ہو یا اس کے پاس تیار یا خام مال موجود ہو۔
2) کمپنی کا سرمایہ جائز و حلال ہو، اور اس کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے اداروں یا افراد کا سرمایہ شامل نہ ہو، یعنی وہ شیئرز نہ تو کسی بینک کے ہوں، اور نہ کسی انشورنس کمپنی کے ہوں، اور نہ ہی اس کمپنی میں بینک، یا انشورنس یا جوا یا شراب یا کسی اور حرام چیز کا کاروبار کرنے والے اداروں کا سرمایہ شامل ہو۔
3) اس کمپنی نے بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہوا ، وجہ اس کی یہ ہے کہ کمپنی کے ذمہ داران تجارت و سرمایہ کاری کرنے میں شیئر ہولڈرز کے شرعًا وکیل ہوتے ہیں، جس طرح سے خود سود پر قرضہ لینا جائز نہیں اسی طرح کسی کو اس کام کے لیے وکیل بنانا بھی جائز نہیں۔
4) کمپنی کا کاروبار جائز و حلال ہو، یعنی وہ کمپنی حرام اشیاء کے کاروبار نہ کرتی ہو، اور اس کا کاروبار نہ صرف حلال اشیاء پر مشتمل ہو، بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق و شرائط فاسدہ وغیرہ سے پاک ہو، جوئے، سٹے، شراب، سودی کاروبار میں ملوث نہ ہو، اس لیے کہ جس طرح حرام کاروبار خود کرنا ناجائز ہے، اسی طرح حرام کاروبار میں کسی اور کی معاونت کرنا، یا کسی کو اپنے وکیل بنانا بھی ناجائز ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ