موافقات عمر رضی اللہ عنہ

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب لا تعداد ہیں، آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ مراد رسول ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری و شجاعت کی مثالیں بھی لا تعداد ہیں، یہ شرف حاصل تھا کہ زبان رسالت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دین اور ایمان کی گواہی ملی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے علم کی گواہی بھی دی تھی، دینی امور آپ رضی اللہ عنہ انتہائی سخت تھے، جسے دیکھ کر شیطان بھی راہ بدل لیتا تھا، زبان رسالت سے شہادت اور جنت کی خوشخبریاں ملی تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ علیہ وسلم جنت میں ادھیڑ عمر والوں کے سردار بھی ہونگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں خوبصورت محل کی بشارت بھی دی تھی۔ یہ مقام حاصل تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کسی کو نبوت کا تاج پہنایا جاتا تو وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بسا اوقات کوئی بات ارشاد فرماتے تھے تو بالکل اسی کے موافق اللہ کا کلام نازل ہوجاتا تھا۔ اس وجہ سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ صاحب الہام ہیں، آپ رضی اللہ عنہ امت مسلمہ میں واحد شخصیت ہیں، جن کو الہام ہوتا ہے۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

“لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنْ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ”

« سے پہلی امتوں میں محدث ہواکرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں »
زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مِنْ نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ”

«تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میںکچھ لوگ ایسے ہواکرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیاکرتے تھے اور اگر میری امت میںکوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے تو وہ حضرت عمر ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پڑھا من نبی ولا محدث» [صحيح البخاري: 3689]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ صاحب الہام ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سچے اور حق پر ہونے کی گواہی دی تھی، آپ رضی اللہ عنہ مبنی پر حقیقت گفتگو فرماتے تھے، آپ کے فیصلے بھی بر حق ہوتے تھے، کتنے کی ایسے مواقع ہیں، جن مواقع میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بات فرماتے تھے، اللہ تعالیٰ عرش سے قرآن مجید نازل فرماتا تھا۔ کتنے ہی فیصلے ایسے ہوتے تھے جو فیصلے عمر کے ہوتے تھے، وہی اللہ تعالیٰ کے ہوتے تھے۔ کتنی ہی باتوں اور فیصلوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موافقت کی تھی۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ کی رائے تائید ربانی سے قیامت تک کے لیے شریعت و قانون بن جاتی تھی۔
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

“ان اللہ جعل الحق على لسان عمر و قلبه” [مسند أحمد: قال شعيب: حديث صحيح]

«عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور دل پر سچ کو رکھ دیا گیا ہے »
سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار فضائل ہیں جنہیں اس مختصر مضمون میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، جن میں سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن پاک میں متعدد آیات طیبات ہیں، جو سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں یعنی بعض ایسے حادثات رونما ہوئے کہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر اپنی رائے کا اظہار فرمایا اور اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ کی رائے کا پاس و لحاظ رکھا ہے اور آپ کی رائے کے عین موافق آیات کریمہ نازل کی ہے۔

(1) : مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے کا مشورہ:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

“وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ؟ فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، ‏‏‏‏‏‏وَآيَةُ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوْ أَمَرْتَ نِسَاءَكَ أَنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُكَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُنَّ:‏‏‏‏ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا بِهَذَا” [صحيح البخاري: 4483, 4790, 4916, 402، صحيح مسلم: 1479, 2399]

«میری تین باتوں میں جو میرے منہ سے نکلا میرے رب نے ویسا ہی حکم فرمایا۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو دوسری آیت پردہ کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ کاش! آپ اپنی عورتوں کو پردہ کا حکم دیتے، کیونکہ ان سے اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ بات کرتے ہیں۔ اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول ﷺ کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی عسى ربه إن طلقکن أن يبدله أزواجا خيرا منکن‏ اور سعید ابن ابی مریم نے کہا کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے انس ؓ سے یہ حدیث سنی»

(2) : پردے کا حکم:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ

“أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ يَخْرُجْنَ بِاللَّيْلِ إِذَا تَبَرَّزْنَ إِلَى الْمَنَاصِعِ وَهُوَ صَعِيدٌ أَفْيَحُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ احْجُبْ نِسَاءَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي عِشَاءً، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتِ امْرَأَةً طَوِيلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَاهَا عُمَرُ:‏‏‏‏ أَلَا قَدْ عَرَفْنَاكِ يَا سَوْدَةُ حِرْصًا عَلَى أَنْ يَنْزِلَ الْحِجَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ” [صحيح البخاري: 146]

«رسول اللہ ﷺ کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو عمر ؓ رسول اللہ ﷺ سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ ؓ، رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، (باہر) گئیں۔ عمر ؓ نے انہیں آواز دی (اور کہا) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ (کا حکم) نازل ہوجائے۔ چناچہ (اس کے بعد) اللہ نے پردہ (کا حکم) نازل فرما دیا»

(3) : بدر کی قیدیوں کے بارے میں موافقت:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

“وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ: فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، وَفِي الْحِجَابِ، وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ”

«میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کی موافقت کی ہے ، مقام ابراہیم کے بارے میں ، حجاب کے بارے میں ، بدر کی قیدیوں کے بارے میں» [صحيح مسلم: 2399]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

“لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ، وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ : ” اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ “. فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ ؛ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : { إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ }، فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ. قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ : فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ، وَصَوْتَ الْفَارِسِ يَقُولُ : أَقْدِمْ حَيْزُومُ . فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ، وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ “. فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ، وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ : ” مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى ؟ ” فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ، أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ ؟ ” قُلْتُ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا، فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ ؛ فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ، وَصَنَادِيدُهَا، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ ؛ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ “. شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : { مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ }. إِلَى قَوْلِهِ : { فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا }. فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ” [صحیح مسلم : 1763]

«رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے دن مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺ کے صحابہ تین سو انیس تھے اللہ کے نبی ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ فرما کر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اپنے رب سے پکار پکار کر دعا مانگنا شروع کردی اے اللہ! میرے لئے اپنے کئے ہوئے وعدہ کو پورا فرمایا اے اللہ! اپنے وعدہ کے مطابق عطا فرما اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی آپ ﷺ برابر اپنے رب سے ہاتھ دراز کئے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک آپ ﷺ کے شانہ سے گر پڑی پس حضرت ابوبکر ؓ آئے آپ ﷺ کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ ﷺ کے کندھے پر ڈالا پھر آپ ﷺ کے پیچھے سے آپ ﷺ سے لپٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ کی اپنے رب سے دعا کافی ہوچکی عنقریب وہ آپ ﷺ سے اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی

(اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰ ى ِكَةِ مُرْدِفِيْنَ ) 8۔ الانفال: 9)

جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا پس اللہ نے آپ ﷺ کی فرشتوں کے ذریعہ امداد فرمائی حضرت ابوزمیل نے کہا حضرت ابن عباس ؓ نے یہ حدیث اس دن بیان کی جب مسلمانوں میں ایک آدمی مشرکین میں سے آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس سے آگے تھا اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی ضرب لگنے کی آواز سنی اور یہ بھی سنا کہ کوئی گھوڑ سوار یہ کہہ رہا ہے، اے حیزوم! آگے بڑھ پس اس نے اپنے آگے مشرک کی طرف دیکھا کہ وہ چت گرا پڑا ہے جب اس کی طرف غور سے دیکھا تو اس کا ناک زخم زدہ تھا اور اس کا چہرہچہرہ پھٹ چکا تھا، کوڑے کی ضرب کی طرح اور اس کا پورا جسم بند ہوچکا تھا۔ پس اس پھٹ چکا تھا پس اس انصاری نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ﷺ یہ واقعہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا تو نے سچ کہا یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی پس اس دن ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے ابوزمیل نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا جب قیدیوں کو گرفتار کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر و عمر ؓ سے فرمایا تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو حضرت ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ ان سے فدیہ وصول کرلیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں! اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر کی رائے ہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ انہیں ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں عقیل کو حضرت علی ؓ کے سپرد کریں، وہ اس کی گردن اڑائیں اور فلاں آدمی میرے سپرد کردیں۔ اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں پس رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے جب آئندہ روز میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ دونوں بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیں تو سہی کس چیز نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے دوست کو رلا دیا پس اگر میں رو سکا تو میں بھی رؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ ﷺ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا اللہ کے نبی ﷺ کے قربیی درخت سے بھی اور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ ) ” یہ بات نبی کی شان کے مناسب نہیں ہے کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہائے “۔ سے اللہ عزوجل کے قول ” پس کھاؤ جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے (کہ وہ تمہارے لئے) حلال طیب (ہے)۔ ” پس اللہ نے صحابہ ؓ کے لئے غنیمت حلال کردی»

(4) : منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھنے میں موافقت:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

“لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ فَغُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ ثُمَّ انْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةٌ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ،‏‏‏‏ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ” [صحيح البخاري: 1366، صحيح مسلم: 2400]

«جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ ﷺ سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم ﷺ جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ ﷺ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے ‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ ﷺ پر سورة براۃ کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ آیت وهم فاسقون‏ تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑے ہوں ‘ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا اور مرے بھی تو نافرمان رہ کر۔ عمر ؓ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول (ہر مصلحت کو) زیادہ جانتے ہیں»

(5) : حرمت شراب کے بارے میں موافقت:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ قَالَ : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً. فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ : { يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ }. قَالَ : فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً. فَنَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي فِي النِّسَاءِ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى }. فَكَانَ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقَامَ الصَّلَاةَ نَادَى : أَنْ لَا يَقْرَبَنَّ الصَّلَاةَ سَكْرَانُ. فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً. فَنَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ، فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَلَمَّا بَلَغَ : { فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ } قَالَ : فَقَالَ عُمَرُ : انْتَهَيْنَا، انْتَهَيْنَا” [مسند احمد : 378 ، حكم الحديث : إسناده صحيح رجاله ثقات]

نوٹ: شیخ احمد شاکر نے اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
«جب حرمت شراب کا حکم نازل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، چناچہ سورت بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یسألونک عن الخمر والمیسر قل فیہمااثم کبیر اے نبی ﷺ یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ اور حضرت عمر ؓ کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی، انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی۔

یا ایہا الذین آمنوا لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکاری

اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ اس آیت کے نزول کے بعد نبی ﷺ کا مؤذن جب اقامت کہتا تو یہ نداء بھی لگاتا کہ نشے میں مدہوش کوئی شخص نماز کے قریب نہ آئے اور حضرت عمر ؓ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی، لیکن انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت مائدہ کی آیت نازل ہوئی اور حضرت عمر ؓ کو بلا کر اس کی تلاوت بھی سنائی گئی، جب نبی ﷺ فہل انتم منتہون پر پہنچے تو حضرت عمر ؓ کہنے لگے کہ ہم باز آگئے، ہم باز آگئے»

(6) : امہات المومنین کے بارے میں موافقت:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

” ‏‏‏‏‏‏وَاجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُنَّ:‏‏‏‏ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، ‏‏‏‏‏‏” [صحيح البخاري: 4483, 4790, 4916, 402، صحيح مسلم: 1479, 2399]

« اور ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول ﷺ کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی عسى ربه إن طلقکن أن يبدله أزواجا خيرا منکن‏»
(7) : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بعض آیات کے نزول کا سبب بننا

(1) : نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“جَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلَكْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا أَهْلَكَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ حَوَّلْتُ رَحْلِي اللَّيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ” [سنن الترمذي: 2980، حسن ]

«سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہوگیا، آپ نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا؟ کہا: رات میں نے سواری تبدیل کردی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کرلی) ابن عباس ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا، تو آپ پر یہ آیت: «نساؤكم حرث لکم فأتوا حرثکم أنى شئتم» نازل ہوئی، بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو، مگر دبر سے اور حیض سے بچو»

(2) : أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ:

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

كُنْتُ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ : مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أُسْقِيَ الْحَاجَّ. وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ. وَقَالَ آخَرُ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ. فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، وَقَالَ : لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ – وَلَكِنْ إِذَا صَلَّيْتُ الْجُمُعَةَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَيْتُهُ فِيمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : { أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ } الْآيَةَ إِلَى آخِرِهَا. [صحيح مسلم: 1879]

«میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس تھا کہ ایک شخص نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسلام لانے کے بعد سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے کوئی عمل نہ کروں اور دوسرے نے کہا مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسلام لانے کے بعد مسجد حرام کو آباد کرنے کے علاوہ کوئی عمل نہ کروں تیسرے نے کہا اللہ کے راستہ میں جہاد اس سے افضل ہے جو تم نے کہا۔ حضرت عمر ؓ نے ان سب کو ڈاٹنا اور کہا کہ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس بلند نہ کرو یہ جمعہ کا دن تھا لیکن جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے آپ ﷺ سے اس کا فتوی طلب کیا جس میں انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی کیا تم حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے عمل کے برابر قرا دیتے ہو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو»

(3) : عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“كَانَ النَّاسُ فِي رَمَضَانَ إِذَا صَامَ الرَّجُلُ، فَأَمْسَى، فَنَامَ ؛ حَرُمَ عَلَيْهِ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالنِّسَاءُ حَتَّى يُفْطِرَ مِنَ الْغَدِ، فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَقَدْ سَهِرَ عِنْدَهُ، فَوَجَدَ امْرَأَتَهُ قَدْ نَامَتْ، فَأَرَادَهَا، فَقَالَتْ : إِنِّي قَدْ نِمْتُ، قَالَ : مَا نِمْتِ، ثُمَّ وَقَعَ بِهَا، وَصَنَعَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ مِثْلَ ذَلِكَ، فَغَدَا عُمَرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى : عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ”
[مسند أحمد : 15795، حكم الحديث: إسناده حسن]

«ابتداء رمضان میں جب کوئی روزہ دار رات کو سوجاتا اس پر کھانا پینا اور بیوی کے قریب جانا اگلے دن افطار کرنے تک حرام ہوجاتا تھا ایک مرتبہ حضرت عمر رات کے وقت نبی ﷺ کے پاس کچھ دیر گذارنے کے بعد گھر واپس آئے تو دیکھا کہ ان کی اہلیہ سو رہی ہیں انہوں نے ان سے اپنی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگیں کہ میں تو سو گئی تھی حضرت عمر نے کہا کہاں سوئی تھی پھر ان سے اپنی خواہش پوری کی ادھر حضرت کعب بن مالک ؓ کے ساتھ بھی ایساہی پیش آیا اگلے دن جب حضرت عمر نے نبی ﷺ کو اس واقعے کی خبردی اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ جانتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کر چکے ہو سو اللہ تم پر متوجہ ہوا اور اس نے تمہیں معاف کردیا»
(8) : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موافقت۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

“كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا، فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا، وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا، فَلَمْ أَجِدْ، فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ – وَالرَّبِيعُ : الْجَدْوَلُ – فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ “، فَقُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” مَا شَأْنُكَ ؟ “. قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا، فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ، فَاحْتَفَزْتُ كَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِي. فَقَالَ : ” يَا أَبَا هُرَيْرَةَ “، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ : ” اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ “. فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ. فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ فَقُلْتُ : هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَخَرَرْتُ لِاسْتِي. فَقَالَ : ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْهَشْتُ بُكَاءً، وَرَكِبَنِي عُمَرُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ “. قُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ، فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي. قَالَ : ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ : ” يَا عُمَرُ، مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ “. قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّةِ ؟ قَالَ : ” نَعَمْ “. قَالَ : فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” فَخَلِّهِمْ “. [صحيح مسلم : 31 ]

«ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں (اللہ نہ کرے) آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہرچند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی (تلاش کرتے کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو۔ (میں نے حکم کی تعمیل کی) سب سے پہلے مجھے حضرت عمر ؓ ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ؓ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر ؓ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ ؓ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر ؓ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر ؓ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا آپ نے ابوہریرہ ؓ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں! حضرت عمر ؓ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل کرنا چھوڑ دیں گے) اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اچھا تو) رہنے دو»

نوٹ: باقی آیت استیذان کے بارے میں جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ روایت ضعیف ہے۔

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: عادل حکمران کی فضیلت