سوال (1822)

(1) : و عن ابن مسعود قال : لا يؤم الغلام حتى تجب عليه الحدود
[نیل الاوطار : ج : 3 ، ص : 202]
(2) : عن ابن عباس قال: “نهانا أمير المؤمنين عمر أن تؤم الناس في المصحف و نهانا أن يؤمنا إلا المحتلم . [كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال: رقم الحديث : 31560]
(3) : قال ابن وهب عن عثمان بن الحكم عن ابن جريج عن عمر بن عبد العزيز قال: لا يؤم من لم يحتلم وقاله عطاء بن أبي رباح ويحيى بن سعيد. [المدونة الكبرى : ج : 1، ص : 178]
(4) : عن إبراهيم قال : كانوا يكرهون أن يؤم الغلام حتى يحتلم [المدونة الكبرى: ج :1، ص : 178]
(5) : عن إبراهيم أنه كره أن يؤم الغلام حتى يحتلم [مصنف عبد الرزاق : 2 \398]

ان آثار سلف کا حکم صحیح ہے ؟ کیا یہ مسئلہ ایسے ہی ہے کہ نابالغ بچہ امامت نہیں کرا سکتا ؟

جواب

ان آثار کی اسانید اگر درست بھی ہوں پھر بھی یہ آثار مرفوع تقریری کے خلاف ہیں، اس لیے یہ مرجوح ہیں، راجح یہی ہے کہ نابالغ ممیز بچہ اہلیت کی بنیاد پر امامت کرا سکتا ہے۔ جیسا کہ مرفوع تقریری حدیث صحیح بخاری [4302] وغیرہ میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔
اس کا بیان ہے کہ «فکنت أحفظ ذلك الکلام» جو کلام لوگ نقل کرتے ، میں اسے یاد کرلیتا” اور ابو داؤد [585] کی روایت میں ہے «کنت غلاما حافظا فحفظت من ذلك قرآن کثيرا» میں یاد کرنے والا بچہ تھا۔ میں نے بہت سارا قرآن اس طرح سے یاد کر لیا تھا۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ