ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
اگرچہ اضطراب، انتشار اور الم کی فصیلیں بڑی ہی سخت اور سنگلاخ ہوتی ہیں، لاریب پریشانیوں اور تفکّرات کے جتّھے انسانی جسم کی بوٹیاں نوچ کھاتے ہیں، اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آنسوؤں کے دھندلکوں میں کچھ بھی دِکھائی اور سجھائی نہیں دیا کرتا اور مجھے یہ بھی کہنے دیجیے کہ مسائل کے گرداب اور بھنور انسان کو یوں پٹخ کر مارتے ہیں کہ دل کی دھڑکنوں کے نشیب و فراز میں اس قدر بے ترتیبی اور بدنظمی دَر آتی ہے کہ پھر اس کی سسکی اور ہچکی تک کی آواز تک سِینے میں دب کر رہ جاتی ہے۔آزاد انصاری کا شعر ہے۔
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکونِ دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
زندگی کے اس سارے زیر و بم کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسان اپنی زندگی ہی کو ختم کر ڈالے۔عارض و لب و رخسار پر پھیلی اداسیوں کا یہ مطلب کبھی نہیں ہُوا کرتا کہ انسان خود ہی کو ختم کر ڈالے، اعضائے رئیسہ میں گُھلی تلخیوں کا بھی یہ معنی ہر گز نہیں ہے کہ خود کشی کر لی جائے۔یہ تو بزدلی اور کم ہمتی کی انتہائی گھٹیا اور مکروہ شکل ہے کہ کرب کی ضرب کے سامنے خود ہی کو ڈھیر کر دیا جائے۔
اوکاڑہ میں گھریلو جھگڑے سے تنگ نوجوان نے خود کشی کر لی، لاہور میں دو خواتین نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔گلگت بلتستان میں خود کشی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔2022 ء کے ابتدائی چھے ماہ میں وہاں 15 افراد نے خود کشی کی۔یہ لمحہ ء فکریہ ہے کہ مُلک بھر میں 2022 ء کے دوران جن افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، ان میں سے 80 فی صد سے زائد کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان تھیں، خود کشی کرنے والوں میں 58 فی صد تعداد خواتین کی تھی، انتہائی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں 55 فی صد خواتین شادی شدہ تھیں۔غربت، بے روزگاری، افلاس، تنگ دستی اور گھریلو تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جس کے باعت پاکستان کے تقریباً پانچ کروڑ افراد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔پریشانیاں اور عوارض جب کسی گھر کی راہ دیکھ لیں تو پھر اپنے چہیتے اور پیارے لوگ بھی یوں چھوڑ جاتے ہیں کہ انسان اشک فشانی کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔امام بخش ناسخ نے کہا تھا۔
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
لوگ ذہنی سکون کھوجنے اور قلبی سرور تلاشنے کے لیے بھی ان مستقم راستوں کا انتخاب نہیں کر پاتے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے ہیں۔ذہنی خلفشار اور انتشار میں الجھے لوگ، بھٹکتے اور لُڑھکتے عین خود کشی کی چوکھٹ پر آ کھڑے ہوتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ شاید حرام موت کو گلے لگا کر سکون مل جائے گا۔نہیں۔۔۔نہیں فکر کی یہ گُم راہی، جہالت اور ضلالت کی موت ہی کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے۔خود کشی کی موت کے گلے میں بانہیں ڈال کر بھی چَین نہیں مل سکتا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کرلیا وہ جہنّم کی آگ میں اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ گراتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خود کشی کرلی اُس کا زہر اُس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ جہنّم کی آگ میں ہمیشہ اسے پیتا رہے گا اور جو شخص کسی ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کرے گا تو اُس کا ہتھیار اُس کے ہاتھ میں ہوگا، جسے وہ جہنّم میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔حضرت ذوق نے درست ہی تو کہا تھا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مَر جائیں گے
مَر کے بھی چَین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سوچ کے زاویے جب نا امیدی ہی پر منتج ہوں، عارضوں میں گِھرے قلوب و اذہان میں جب مایوسی پنجے گاڑ لے تو پھر خود اپنی ذات کو ختم کرنے کے احساسات شدّت اختیار کرنے لگتے ہیں۔خود کشی کی درجنوں وجوہ ہوں گی مگر بنیادی طور پر یہ اسلام سے دوری کا شاخسانہ ہوتا ہے، اسلام، مایوسی اور نا امیدی کی اجازت ہی کب دیتا ہے؟ سورہ يوسف کی آیت 87 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
” اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقیناً رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں “
نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا کبیرہ گناہ ہے “
نہ جانے کیوں! لوگوں کے مَن ذرا سے کلپنے اور دل سلگنے لگیں تو وہ یہ دنیا چھوڑ دینے کی ٹھان لیتے ہیں، وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ہمارے جسموں اور روحوں پر ہمارا اختیار ہی کب ہے؟ یہ تو سب اللہ کی ملکیت ہیں، وہی اللہ جو اتنا رحیم ہے کہ جب سب لوگ آپ کو بیچ منجدھار چھوڑ جاتے ہیں، وہ تب بھی آپ کے دکھ درد کو آسودگیوں میں بدلنے کے لیے آپ کے ساتھ ہوتا ہے، جی ہاں جب آپ دنیا میں بالکل ہی تنہا رہ جائیں، جب آپ کی اپنی وہ اولاد بھی، جس کے لیے آپ نے اپنی ساری زندگی کھپا دی ہوتی ہے، آپ کے مرنے کی بد دعائیں کرنے لگیں، وہ اللہ تب بھی آپ کے ساتھ ہوتا ہے، سو، آنسوؤں سے لدی آنکھوں کو اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔امیر مینائی نے کہا تھا۔
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے