سوال (1943)
آج سے تقریباً پندرہ برس قبل میرا نکاح میرے بھائی بہن نے منت سماجت کر کے میری مرضی کے بغیر ہی میری ناپسندیدہ جگہ کر دیا ہے، تب سے اب تک حالات بھی سازگار نہیں ہیں،
اس نکاح کا حکم کیا ہے ؟ بصورت دیگر حالات کو بہتر کرنے کا کوئی حربہ وظیفہ عنایت فرما دیں۔
جواب
اصولی بات یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کو منت سماجت کرکے کسی رشتے میں پرونا مناسب نہیں ہے، بلکہ انہیں مشورہ دیا جائے اور پھر انہیں فیصلہ کرنے کا موقعہ دیا جائے، تاکہ وہ ذہنی اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے شریکِ حیات کا انتخاب کریں۔
یہ کوئی صحتمند رویہ نہیں ہے کہ ہم منت سماجت کرکے، یا بلیک میل کرکے کسی کو کسی رشتے پر راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے بقائمی ہوش و حواس نکاح کر لیا ہے، بھلا کسی کے کہنے یا بقول آپ کے منت سماجت پر ہی تو شرعی اعتبار سے تو یہ نکاح منعقد ہو گیا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ آپ راضی نہیں تھے، اور اس نکاح سے آپ کے لیے حالات سازگار نہیں رہے، یہ ابتدا میں دو چار دن دو چار مہینے یا حد ایک دو سال تک یہ بات واقعتا حقیقت ہو سکتی ہے۔ لیکن پندرہ سال گزر جانے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک ٹھیک ٹھاک عرصہ اس شادی کے بعد گزار لیا ہے، لہذا اب یہ بات ذہن سے جھٹک دیں کہ آپ اس پر راضی تھے یا نہیں تھے۔
آپ نے اپنے حالات کے سازگار نہ ہونے کو بغیر مرضی کے نکاح کے ساتھ جوڑا ہے، حالانکہ یہ نتیجہ حتمی نہیں یہ آپ کی سوچ اور وہم ہو سکتا ہے، جو آپ کی مشکلات میں کمی کی بجائے مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
دنیا میں کتنے ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے مرضی کی شادی نہیں کی، لیکن ان کے حالات بہت اچھے ہوتے ہیں، لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں کہ من پسند شادی کرکے بھی وہ مشکلات کا شکار رہتے ہیں!
میرے خیال میں آپ کو اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، اور اپنے ارد گرد چند مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے، ڈھیروں خوبیوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جو چند مسائل اور مشکلات ہیں انہیں اچھے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں، اللہ تعالی سے دعا بھی کریں، یقینا کوئی ایسی مشکل نہیں، جسے اللہ تعالی حل کرنے پر قادر نہیں ہے۔
پھر بھی اگر کوئی مرد یا عورت سمجھے کہ ہم دونوں مزید اکٹھے نہیں رہ سکتے، تو شریعت نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کے ذریعے الگ ہونے کا اختیار دیا ہے۔ لیکن ایسا انتہائی اقدام کرنے سے پہلے یہ بہت اچھے طریقے سوچ لینا چاہیے کہ علیحدگی کے بعد کے حالات پہلے سے مزید خراب نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالی سب کے لیے آسانیاں فرمائے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
والدین بچوں کی شادی اسی لیے کرتے ہیں کہ بچے شادمانی کی زندگی گزاریں اور انہیں خوش دیکھ کر خود بھی شاداں و فرحاں رہیں۔ مگر بعض عاقبت نااندیش لوگ بچوں کی خوشی کی بجائے اپنی خوشی کو مقدم رکھتے ہیں اور بچے زندگی بھر اس کی سزا بھگتتے ہیں۔ ہمارے اقرباء میں بچے کی مرضی کے خلاف شادی طے کردی گئی ، بچہ نکاح ہونے کے لمحات تک منت سماجت کرتا رہا کہ مجھے اس مشکل نہ ڈالیں ، مگر اس بیچارے کہ نہ سنی گئی اور زبردستی نکاح کردیا گیا اور صرف 6 ماہ بعد طلاق تک نوبت پہنچ گئی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
ایک تو ہمیں اپنے بچوں کو اختیار دینا چاہیے، دوسرا یہ ہے کہ بچوں کو بھی یہ شعور ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کی صورتحال بن جائے تو اس کے لیے بھی مناسب حل موجود ہے، وہ حل انتہائی آسان ہے ، لیکن اس کے لیے تھوڑا سا دل کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
سب سے اچھا وظیفہ اخلاق حسن اور رات آخری پہر اللہ سے باتیں کرنا ہے ۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ