سوال (5850)
میرا سوال پچھلے ہفتے کی کلاس کے حوالے سے تھا۔
حضرت اسماعیل کی پہلی زوجہ بنو جرہم سے تھیں۔ ان میں نا شکری کے آثار دیکھ کر حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل سے چوکھٹ بدلنے کو کہا۔
اس سے چند سوالات میرے ذہن میں آئے تھے۔
۱۔ یہ حکم خاص نبی کے لیے تھا یا ہمارے لیے بھی ہے؟
اگر نبی کے ساتھ خاص نہیں تھا اور ہمارے لیے بھی ہے تو درج ذیل سوالات ذہن میں آتے ہیں:
– کیا یہ صرف زوجہ کے لیے خاص ہے یا عزیز و اقربا کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر عزیز و اقربا میں سے کسی میں نا شکری کے آثار پائے جائیں تو ان سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے؟
۔ مزید یہ کہ یہ کنارہ کشی قطع تعلقی کے زمرے میں تو نہیں آئے گی کیا؟
۔ کس حد تک نا شکری پر ہم ایسا کر سکتے ہیں؟
۔ اگر کسی میں باقی خیر ہو، کیا صرف ناشکری کی بنیاد پر کنارہ کشی صحیح ہے؟
۔ حضرت ابراہیم سے حضرت اسماعیل کو یہ تلقین کیوں نا کی کہ آپ اپنی زوجہ کی شکر گزاری کے لحاظ سے تربیت کیجیے؟ نبی تو اصلاح کے لئے آتے ہیں۔ اور ہمیں اس واقعہ میں شکر گزاری کی دعوت دینے کے حوالے سے کچھ نہیں ملتا، بلکہ بغیر دعوت علیحدگی کا کہا گیا۔
۔ نا شکری میں ایسی کیا خرابی والی بات ہے کہ علیحدگی کا حکم دیا گیا؟
۔ کیا خواتین کے لئے بھی یہی حکم ہوگا کہ اگر کسی کا خاوند نا شکرا ہو تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہیں ہیں؟
جواب
طلاق کے اسباب میں سے ایک اہم سبب عورت کا ناشکری اور غیر قناعت ہونا ہے۔
اہل علم نے جب طلاق کی وجوہات پر بات کی ہے، تو ان میں ایک وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ اگر عورت ناشکری ہو، غیر قانعہ، یعنی جو کچھ ملے اس پر خوش نہ ہو، تو وہ گھر تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔
اس پر سب سے بڑی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔
اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حکم خاص انبیاء کے لیے تھا، تو ایسا نہیں ہے، یہ حکم عام ہے، سب کے لیے ہے۔
اسی لیے حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے چار چیزیں دیکھ کر نکاح کیا جاتا ہے:
مال، حسب، جمال اور دین — اور آخر میں حکم دیا کہ دین دار عورت کو ترجیح دو۔
اور دین داری صرف پردہ یا نماز نہیں، دین داری کا مطلب مکمل دینی مزاج ہے، قناعت ہے، شکر ہے، گھر سنبھالنے والی ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار اگر ایسے ہوں، تو ان سے تعلق کیسے رکھا جائے؟
تو جواب یہ ہے کہ قطع تعلق الگ چیز ہے، کنارہ کشی الگ۔
کنارہ کشی کا مطلب یہ ہے کہ تعلق محدود کر لیا جائے، جیسے وہ لوگ جو قرض لیتے ہیں، اور فضول خرچ کرتے ہیں تو ان سے بچنے میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح اگر کسی عورت میں قناعت نہ ہو، ناشکری ہو، تو یہ کوئی معمولی خرابی نہیں یہ تو گھر کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔
اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کہا تھا کہ “اپنی بیوی کو بدل دو”، صرف اس بنیاد پر کہ وہ ناشکری کرنے والی تھی۔
اب کسی کو یہ خیال آئے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اسے سمجھایا کیوں نہیں؟
تو بات یہ ہے کہ اصل تربیت تو والدین کے گھر سے ہوتی ہے، شوہر تھوڑی بہت اصلاح کر سکتا ہے، مگر کوئی بیوی کو مکمل بدل نہیں سکتا، جیسے کوئی لڑکی کسی آوارہ لڑکے کو سیدھا نہیں کر سکتی ،جو ماں باپ نہ کر سکے، وہ دوسرا کیسے کرے؟
پھر اگر عورت کا شوہر ناشکرا ہے، غیر قانع ہے، فضول خرچ ہے، تو عورت کو بھی گنجائش ہے کہ وہ بھی علیحدگی کا سوچے، کیونکہ یہ بیماریاں ہیں، اور زندگی خراب کر دیتی ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ قناعت بہت بڑی دولت ہے۔ جس گھر میں قناعت نہ ہو، وہاں بے سکونی، قرض، جھگڑے اور بربادی آتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ