سوال (2412)

سیدنا عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں:

‏‏‏‏‏‏”أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعُهْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ” [سنن ابن ماجه : 1385]

«ایک نابینا نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے صحت و عافیت کی دعا فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہوں جو بہتر ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں، اس شخص نے کہا: آپ دعا کر دیجئیے، تب آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد یہ دعا کرے:

اللهم إني أسألک وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى اللهم فشفعه في

اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں محمد ﷺ کے ساتھ جو نبی رحمت ہیں، اے محمد! میں نے آپ کے ذریعہ سے اپنے رب کی جانب اس کام میں توجہ کی تاکہ پورا ہوجائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما»
سوال یہ ہے کہ یہ روایت صحیح ہے، اس روایت کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کرنا صحیح ہے، اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا تو سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کیوں سکھلائی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعا کردیتے۔

جواب

اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا گیا ہے، یہ مسئلہ درست ہے، ہم اس میں یہ استدلال کریں گے کسی بڑی شخصیت یا کسی بزرگ عالم دین سے دعا کروا کے ہم اس کی دعا کا وسیلہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، یہ اس روایت کی وجہ سے جائز ہے، باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا سیکھائی تھی کہ اس طرح آپ نے اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی ہے، یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا اس لیے سیکھائی تھی کہ کسی سے جب آپ دعا کرواتے ہیں تو ساتھ آپ خود بھی اللہ تعالیٰ سے رابطے میں رہیں، باقی اگر کوئی یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اس لیے سیکھائی تھی کہ بعد کے لوگ یہ دعا پڑھ کے میرا وسیلہ اختیار کریں، تو ایسی سوچ درست نہیں ہے، اگر ایسے ہوتا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بارش کے لیے دعا کرنی ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر دعا کرتے تھے، ان کو کہتے تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں، وہ خود بھی یہ کہتے تھے کہ اے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر درخواست کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے، تو تو بارش دیتا تھا، لیکن اب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو لے کر آئے ہیں یہ دعا کر رہے ہیں، ہمارے حق میں ان کی دعا قبول فرما، اس میں بھی یہ بات موجود ہے کہ دعا کروانے والا خود بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کرے گا، باقی میت کا واسطہ درست نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ پیش نہیں کیا تھا۔

فضیلۃ العالم محمد فہد محمدی حفظہ اللہ

وسيلة بالذات و الاموات قرآن و حدیث، تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین وسلف صالحین

سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی کے وسیلے طفیل مانگنا، دعا کرنا ثابت ہے، اگر اس وسیلہ کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو أهل السنة کی کتب السنة میں یہ عقیدہ موجود ہوتا اور خیر القرون و بعد کے سلف صالحین اسے اختیار کرتے جبکہ قرآن وحدیث کی صریح ادلہ وقرائن اس کے برعکس ہیں اور یاد رکھیں یہ شرکیہ و بدعیہ وسیلہ کی قسم سابقہ امتوں کے اہل ایمان میں بھی موجود نہیں تھیں۔
قرآن وحدیث میں جس وسیلہ کی مشروعیت ملتی وہ ہے ایمان اور اعمال صالحہ کا وسیلہ اور کسی صحیح العقیدہ صالح شخصیت سے ان کی زندگی میں ان سے دعا کروانا۔

والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ