سوال (5368)

اہل سنت کا مہدی حضرت ابو بکر، عمر یا عثمان کی نسل سے کیوں نہیں ہے؟ صرف علی کی نسل سے ہی کیوں؟ ہاں؟ کیوں بھائی، اچھا، پھر یہ بتائیں کہ صرف فاطمہ کی نسل سے کیوں؟ زینب، رقیہ اور ام کلثوم کا کیا قصور ہے؟ نہ آپ نے انہیں چادر کساء) میں شامل کیا، نہ انہیں آیت تطہیر کا مقام دیا نہ ان کی نسل کو کوئی امتیاز ملا نہ ان کی اولاد کو سیدا شباب اہل جنت کا لقب ملا، ساری فضیلتیں صرف فاطمہ اور ان کے خاندان کے لیے کیوں ہیں، کیا بات ہے، معاف کیجیے گا…. کیا نبی ﷺ اللہ کی پناہ! اپنی بیٹیوں میں فرق کرتے تھے؟ کیا تمام فضائل صرف ایک بیٹی کے لیے مخصوص ہیں؟ براہِ کرم گالی نہیں فتویٰ نہیں تعصب نہیں دلیل یا ہمیں وضاحت دیں۔

جواب

اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

“وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ”

یعنی تخلیق کے سارے اختیارات اللہ کے پاس ہیں، اور انتخاب کے بھی، چننے کے بھی، برگُزیدہ کر دینے کے بھی تمام تر اختیارات صرف اللہ ہی کے پاس ہیں۔ کسی کو بھی اس میں کوئی اختیار حاصل نہیں، نہ تخلیق میں، نہ انتخاب میں ، تو اس اعتبار سے اگر اللہ تعالی کسی کو چاہے برگُزیدہ کرے، کسی کو چاہے مقام عطا فرما دے، تو یہ اللہ کا نظام ہے۔ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس فضیلت کو مانے بغیر چارہ نہیں، جو کتاب و سنت سے ثابت ہو۔ لیکن اس فضیلت کی بنیاد پر کسی اور کو نعوذ باللہ اہلِ بیت سے خارج کر دینا، یا اس کے مقام و مرتبہ کو گھٹانا، یا عزت و احترام نہ دینا، یا جن پر فضیلت ثابت نہیں اُن پر طعن و تشنیع کرنا، اُنہیں حقیر سمجھنا، یہ کوئی درست طریقہ نہیں۔
اگر انسان کو اختیار دے دیا جائے، تو ہر بات پر اعتراض ہوگا، کفارِ مکہ نے نبی کریم ﷺ پر اعتراض کیا اور کہا:

“لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ”

یعنی قرآن کسی بڑی شخصیت پر نازل ہوتا!
تو اللہ نے جسے جس مقام پر رکھا ہے، وہی اس کا حق ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بنات (بیٹیاں) چار تھیں۔ تین بیٹیاں آپ ﷺ کی زندگی میں ہی وفات پا گئیں، صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے بعد زندہ رہیں۔
اور چونکہ احکام بالتدریج نازل ہوئے، تو جو بیٹیاں پہلے چلی گئیں، ان کے متعلق کچھ بیان نہیں ہوا، لیکن جو زندہ رہیں، ان کے فضائل نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے بیان کیے۔
لہٰذا جو دنیا سے پہلے چلا گیا، اس پر طعن نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑا شرف “بنات الرسول” ہونا ہے، اور یہ چاروں بیٹیوں کو حاصل ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کی تفصیل ہمیں سمجھ آ جائے، بعض چیزیں انسان کے فہم سے باہر ہوتی ہیں۔
ہمارا کام ہے:

“سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا”

ہم نے سن لیا، اور اطاعت کی۔
بغیر دلیل کے کسی دوسرے کی تنقیص نہ کریں، اور اللہ کی تقسیم پر راضی رہیں یہی مسلمان کا شیوہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ