“نبی کریم ﷺ کا صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کے لیے بے مثال جذبہ”
(قسط: 01)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نہ صرف دین کے معاملات سکھائے ہیں، بلکہ ان کی تربیت کی بھی ایسی مثالیں قائم کی ہیں، جو آج تک ہماری رہنمائی کرتی ہیں، آپ کا یہ بے مثال جذبہ تھا کہ آپ ہر وقت اپنے صحابہ کو علم سکھانے میں مصروف رہتے تھے، تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہوں پر بھی چل سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر اپنے صحابہ کرام کو علم کا خزانہ عطا کیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہ انداز اس قدر مؤثر اور جامع تھا کہ آپ نے ہر صحابی کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق علم عطا کیا اور ان کے دلوں میں تقویٰ و علم کی جوت جگائی۔ جس کی بدولت صحابہ کرام نے علم اور عمل کی بلندیاں طے کی ہیں، آپ کی یہ روش اور بے مثال کوششیں اس بات کی غماز ہیں کہ علم کا حصول اور اس کی نشر و اشاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کس قدر اہمیت رکھتا تھا۔
آپ کے ہر قول و فعل میں تعلیم کا ایک انوکھا انداز تھا، جس نے صحابہ کرام کو ایک ایسے راستے پر چلایا جس سے وہ نہ صرف اپنے وقت کے بہترین لوگ بنے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گئے جو آج بھی زندہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم دینے کا طریقہ زندگی کے ہر پہلو کو شامل تھا، آپ کا یہ جذبہ صحابہ کرام کی اجتماعی اور فردی کردار کی تعمیر کا باعث بنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے صحابہ کرام میں ایسی تبدیلیاں پیدا کی ہیں، جن کی بدولت وہ تاریخ کے سب سے کامیاب اور عظیم ترین افراد بنے۔ یہ بے مثال جذبہ اور طریقہ ہی وہ بنیاد ہے، جس پر اسلام کا نظام قائم ہوا اور جو آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔
میں یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
(1) سورۃ فاتحہ کی تعلیم دینا
سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي ؟فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ [سورة الأنفال آية : 24]، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [سورة الفاتحة آية : 2] هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ، الَّذِي أُوتِيتُهُ” [صحيح البخاري : 4703]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فوراً ہی کیوں نہ آئے؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ (بتانے سے پہلے) مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورة فاتحہ الحمد لله رب العالمين یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے»
(2) جنت کی خزانوں کی طرف رہنمائی کرنا
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، أَوْ قَالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَى وَادٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ، وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقُولُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَقَالَ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” [صحيح البخاري : 4205]
«جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ اللہ سب سے بلندو برتر ہے، اللہ سب سے بلندو برتر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جانوں پر رحم کرو، تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو، جو تم سے دور ہو، جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا۔ میں نے جب لا حول ولا قوة إلا بالله کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتادوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے لا حول ولا قوة إلا بالله یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی مدد شامل ہو»
(3) معوذتین کی تعلیم
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“كُنْتُ أَقُودُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لِي: يَا عُقْبَةُ، أَلَا أُعَلِّمُكَ خَيْرَ سُورَتَيْنِ قُرِئَتَا ؟فَعَلَّمَنِي: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ قَالَ: فَلَمْ يَرَنِي سُرِرْتُ بِهِمَا جِدًّا، فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ صَلَّى بِهِمَا صَلَاةَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: يَا عُقْبَةُ كَيْفَ رَأَيْتَ؟ [سنن ابي داود: 1462]
«میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: عقبہ ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس سکھائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں کے سیکھنے سے بہت زیادہ خوش ہوتے نہ پایا، چناچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے لیے سواری سے اترے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: عقبہ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے»
(4) نماز کے بعد تسبیح، تحمید اور تکبیر کی تعلیم
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ مِنَ الْأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَا وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ يَحُجُّونَ بِهَا وَيَعْتَمِرُونَ وَيُجَاهِدُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَمْرٍ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ يُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ وَكُنْتُمْ خَيْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِ، إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَاخْتَلَفْنَا بَيْنَنَا، فَقَالَ: بَعْضُنَا نُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَنَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَنُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: تَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ حَتَّى يَكُونَ مِنْهُنَّ كُلِّهِنَّ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ” [صحيح البخاري: 843]
«نادار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیر و رئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے، حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن مال و دولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں، جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں (اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے) اس پر آپ نے فرمایا کہ لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کرو گے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں، انہیں تم پالو گے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہوجاؤ گے ، سوا ان کے جو یہی عمل شروع کردیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح سبحان الله، تحمید الحمد لله، تکبیر الله أكبر کہا کرو۔ پھر ہم میں اختلاف ہوگیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح سبحان الله تینتیس مرتبہ، تحمید الحمد لله تینتیس مرتبہ اور تکبیر الله أكبر چونتیس مرتبہ کہیں گے۔ میں نے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان الله، الحمد لله اور الله أكبر کہو تا آنکہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہوجائے»
(5) مصیبت کی گھڑی میں تسلی دینے والے کلمات کی تعلیم
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے کہ:
“أَلَا أُعَلِّمُكِ كَلِمَاتٍ تَقُولِينَهُنَّ عِنْدَ الْكَرْبِ، أَوْ فِي الْكَرْبِ: اللَّهُ، اللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا.” [سنن ابي داود : 1525]
«کیا میں تمہیں چند ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم مصیبت کے وقت یا مصیبت میں کہا کرو الله الله ربي لا أشرک به شيئًا یعنی اللہ ہی میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی»
(6) اللہ کی عظمت کے وزنی کلمات کی تعلیم
سیدہ جویریہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:
“أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى وَهِيَ جَالِسَةٌ، فَقَالَ: ” مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا؟ ” قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ” [صحيح مسلم: 2726]
«نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ہی نماز ادا کرنے کے بعد ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں پھر دن چڑھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ وہیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت میں تمہارے پاس سے گیا ہوں، تم اسی طرح بیٹھی ہوئی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تیرے بعد ایسے چار کلمات تین مرتبہ کہے ہیں کہ اگر تیرے آج کے وظیفہ کو ان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ان کلمات کا وزن زیادہ ہوگا “سُبْحَانَ اللَّهِ وبحمدہ” اللہ کی تعریف اور اسی کی پاکی ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر اور اس کی رضا اور اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر»
(7) “قرض کی ادائیگی کے لیے موثر کلمات”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ؟ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ” [سنن الترمذي : 3563]
«ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: “اللهم اکفني بحلالک عن حرامک و أغنني بفضلک عمن سواک” اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل رزق، مال و دولت سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے»
(8) “بہترین عمل کی رہنمائی ، خادم کی محنت سے آگے کا راستہ”
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“أَنَّ فَاطِمَةَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا، وَ شَكَتِ الْعَمَلَ، فَقَالَ: ” مَا أَلْفَيْتِيهِ عِنْدَنَا”. قَالَ: ” أَلَا أَدُلُّكِ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ؟ تُسَبِّحِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدِينَ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرِينَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ حِينَ تَأْخُذِينَ مَضْجَعَكِ” [صحيح مسلم: 2728]
«سیدہ فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم مانگنے اور کام کی شکایت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں خادم تو ہمارے پاس سے نہیں ملے گا ایک عمل میں تمہیں بتائے دیتا ہوں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے تم جب بستر پر جاؤ تو تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ، تینتیس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اور چونتیس مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہو»
(9) جنت کی طرف رہنمائی
سیدنا معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ:
“كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، قَالَ ثُمَّ تَلَا: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ [سورة السجدة آية: 16] حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ [سورة السجدة آية: 19] ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ، وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ: كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ؟ فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ” [سنن الترمذي: 2616]
«میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوا، ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا نماز (تہجد) پڑھنا، پھر آپ نے آیت «تتجافی جنوبهم عن المضاجع» کی تلاوت «يعملون» تک فرمائی، آپ نے پھر فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا: دین کی اصل اسلام ہے اور اس کا ستون (عمود) نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو، میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟»
(10) “مغفرت مانگنے کے لیے سب کلمات کا سردار” (سید الاستغفار)
بشیر بن کعب عدوی فرماتے ہیں کہ مجھ سے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سید الاستغفار “مغفرت مانگنے کے سب کلمات کا سردار” یہ ہے کہ یوں کہے۔
“اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، قَالَ: وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ” [صحيح البخاري : 6306]
“اللهم أنت ربي، لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدک، وأنا على عهدک ووعدک ما استطعت، أعوذ بک من شر ما صنعت، أبوء لک بنعمتک على وأبوء بذنبي، اغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت”
اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن اس کا انتقال ہوگیا شام ہونے سے پہلے، تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہوگیا تو وہ جنتی ہے»
(11) “جنت میں درخت لگانے کا عمل”
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يَغْرِسُ غَرْسًا، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا الَّذِي تَغْرِسُ، قُلْتُ: غِرَاسًا لِي، قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى غِرَاسٍ خَيْرٍ لَكَ مِنْ هَذَا؟، قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، يُغْرَسْ لَكَ بِكُلِّ وَاحِدَةٍ شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ” [سنن ابن ماجة : 3807]
«وہ ایک دن درخت لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: ابوہریرہ! تم کیا لگا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں درخت لگا رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر درخت نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ضرور بتلائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر کہا کرو، تو ہر ایک کلمہ کے بدلے تمہارے لیے جنت میں ایک درخت لگایا جائے گا»
(12) “سب سے افضل صدقہ”
سیدنا سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا سُرَاقَةُ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ أَوْ مِنْ أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ قَالَ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةٌ إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرَكَ” [مسند أحمد، مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ، حَدِيثُ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: 17586]
«ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا سراقہ! کیا میں تمہیں سب سے عظیم صدقہ نہ بتاؤں؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری وہ بیٹی جو اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کی وجہ سے تمہارے پاس واپس جائے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو»
تحریر: افضل ظہیر جمالی