سوال (2952)

کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وسیلہ دے کر دعا کی جا سکتی ہے، مثلاً کوئی کہے اے اللہ! محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صدقے میری فلاں مشکل دور کر دے۔

جواب

نہیں، یہ صورت جائز وسیلہ کی نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

وسیلہ کا موضوع ایک تفصیل طلب ہے۔
شریعت میں تین قسم کے وسیلے جائز ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا وسیلہ
(2) نیک اعمال کا وسیلہ
(3) کسی نیک زندہ شخص سے دعا کروانا۔
اسلام میں اس کے علاؤہ کوئی بھی وسیلہ نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

سائل: بامر مجبوری مسجد قریب نہ ہونے کی وجہ سے، اور وقت کی قلّت کے پیش نظر یہ والا خطبہ جمعہ ایک دیوبند مسجد میں پڑھنا پڑنے گیا، خطبہ کا موضوع تھا کہ وسیلہ اور اس کی جائز صورتیں، دوران خطبہ انہوں نے کہا کہ حضور اقدس جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے دعا کرنا جائز ہے، ان کا وسیلہ دینا جائز ہے، اور بنیاد یہ بنائی جس طرح سے نیک اعمال کا وسیلہ دینا جائز ہے، اسی طرح سے نبی علیہ السلام کی محبت بھی ایک نیک عمل ہے، جیسا کہ نبی علیہ السلام نے حضرت عمر کو بھی تنبیہ فرمائی کہ تم تب تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک سب سے بڑھ کے مجھ سے محبت نہ کرو، لہذا اس بنیاد پہ اپنی دعاؤں میں نبی علیہ السلام کے صدقے اور وسیلے سے دعا کی جا سکتی ہے،
بأمر مجبوری جمعہ تو ادا کرلیا، لیکن ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے نماز دہرانی چاہیے یا نہیں، احباب سے گزارش ہے کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: اس میں مختلف باتیں واضح کرنا ضروری ہیں۔
1۔ دیوبندی کے بہت بڑے عالم مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب اختلاف امت اور صراط مستقم میں بھی یہی بات کی گئی ہے کہ ہماری فقہ کی کتابوں میں جو ذات کے وسیلہ کو مکروہ کہا گیا ہے تو ہم رسول اللہ ﷺ کی ذات کا وسیلہ نہیں دیتے بلکہ ہم تو ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ ایک عمل ہے اور ہم اس عمل کا وسیلہ دیتے ہیں پس ہمارا وسیلہ دینا جائز ہے۔
2۔ پہلے نمبر پہ کی گئی بات اور مذکورہ خطبہ میں کی گئی بات سو فیصد درست ہو سکتی ہے اگر واقعی رسول اللہ ﷺ کی ذات کی بجائے ان سے ہماری محبت کا وسیلہ دیا جائے لیکن ہوتا ایسا ہے کہ انکے بڑے جب لاجواب ہو جاتے ہیں تو یہ کہ دیتے ہیں کہ ہم بھی ذات کا وسیلہ نہیں دیتے لیکن اپنی عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ ذات کا وسیلہ نہیں دینا صرف عمل یعنی محبت کا وسیلہ دینا ہے پس بات خطبہ میں درست کی ہے لیکن عمل اس پہ نہیں ہے۔
3۔ خطیب نے ایک لفظ استعمال کیا ہے کہ نبی کے صدقے۔ تو یہی لفظ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو بہت بڑا کفریہ لفظ بن سکتا ہے وجہ یہ ہے کہ صدقہ کا معروف معنی یہ ہے کہ ہم سے جب فقیر کہتا ہے کہ اپنی اولاد کا صدقہ نکالتے ہوئے مجھے فلاں دے دو تو ہم صدقہ نکالتے ہیں تاکہ اس صدقہ کی وجہ سے وہ بلاوں سے محفوظ ہو جائے یعنی ہم صدقہ تب نکالتے ہیں جب ہمیں اولاد کی تکلیف کا کسی اور سے ڈر ہوتا ہے اس لحاظ سے تو جب ہم اللہ کو کہیں گے کہ اپنے نبی کا صدقہ ہمیں فلاں دے تو اسکا مطلب ہے اللہ کو نعوذ باللہ یہ ڈر ہے کہ کوئی اسکے نبی ﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچا جائے بھلا اس سے بڑا بھی کوئی شرک ہو گا؟
4۔ باقی اگر کوئی وسیلہ کا عقیدہ رکھتا ہے اور خاص کر جب اسکو محبت کی تاویل میں سمجھتا ہے تو اس سے نماز پہ عصر نہیں پڑھے گا اگر باقی عقیدہ اور دوسری باتیں درست ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

سوال: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا ثابت ہے؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے وسیلے سے دعا کرنا ثابت نہیں۔

نابینا صحابی (رضی اللہ عنہ)کے دعا کرنے والی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا وسیلہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا وسیلہ ہے جو آپ نے ان کے لیے اس وقت کی تھی۔ [ترمذی: 3578, سندہ صحیح]

زندہ شخص کی دعا کے وسیلے سے تو دعا کرسکتے ہیں لیکن اس کی ذات کے وسیلے سے دعا کرنا باطل ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سوال: شفاء السقام للسبكي (ص: ٣٥٨):

إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه و بعد خلقه في مدة حياته في الدنيا و بعد موته في مدة البرزخ.

بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے۔ [البقرۃ: 89]

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقراء و مہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے۔ [مشکاۃ: 2 / 447 قدیمی]

اس کی وضاحت مطلوب ہے۔

جواب: پیارے بھائی دعا میں بنایا جانے والا ہر وسیلہ نا جائز نہیں ہوتا بلکہ کچھ وسیلے جائز اور کچھ ناجائز ہوتے ہیں۔

جائز وہ ہوتے ہیں جو خالص شریعت ہوں یہ وسیلے عقل کے بھی مطابق ہوتے ہیں جبکہ جو ناجائز وسیلے ہوتے ہیں وہ عقل کے بھی مخالف ہوتے ہیں۔

جائز وسیلوں میں تین مشہور وسیلے ہیں ایک اسما حسنی کو وسیلہ بنانا وللہ الاسماء الحسنی کے تحت۔ دوسرا اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنانا جیسا کہ بخاری میں غار میں پھنسنے والے تین لوگوں کا واقعہ ذکر ہے اور تیسرا کسی کی دعا کا وسیلہ بنانا جیسا کہ مسلم میں عمر ؓ کا عباسؓ کی دعا کو وسیلہ بنانے کا ذکر ملتا ہے۔

اسکے علاوہ کسی کی ذات کا وسیلہ بنانا شریعت سے بھی ثابت نہیں اور عقل کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر کسی کی ذات کا ہی وسیلہ بنانا ہے تو پھر سب سے اعلی ذات کا وسیلہ کیوں نہ بنائیں۔

جہاں تک اوپر بتائی گئی تین دلیلوں کا معاملہ ہے انکا جواب مندرجہ ذیل ہے۔

پہلی دلیل ایک فتوی ہے اس میں پہلی بات تو یہ کہ ہمارے لئے فتوی کی بجائے قرآن و حدیث حجت ہے پس جب فتوی واضح قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور بغیر دلیل کے ہے تو اسکی اتباع نہیں ہو گی دوسری بات یہ کہ اس فتوی میں ابہام ہے، یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ نبی ﷺ کا وسیلہ ذات کا بنا سکتے ہیں یا ان سے محبت یا انکی اتباع کے عمل کو وسیلہ بنا سکتے ہیں یہ اس لئے کہ رہا ہوں کہ وسیلہ کے جو قائل ہیں ان میں اکثر جب نبی ﷺ کی ذات کے وسیلہ کی بات کرتے ہیں تو جب ان پہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ تو عقل اور واضح دلیل کے خلاف ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ذات کی بات نہیں کر رہے بلکہ نبی ﷺ سے ہم کو محبت ہے، ہم اسکی بات کر رہے ہیں پس آپ مولانا یوسف لدھیانوی جو دیوبند کے بہت بڑے عالم تھے انکی کتاب اخٹلاف امت اور صراط مستقیم کو پڑھیں تو اس میں یہی لکھا ہے کہ ہمارے امام ابو حنیفہ نے جو کہا ہوا کہ بحق فلاں مانگنا مکروہ ہے تو ہم جو مانگتے ہیں وہ نبی ﷺ کی ذات کو وسیلہ نہیں بلکہ ان سے محبت کو وسیلہ بناتے ہیں۔

دوسری دلیل میں قرآن کی آیت میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی البتہ اس کی تفسیر میں پیش کی جانے والی روایت بہت ضعیف ہے۔

تیسری دلیل بھی ضعیف ہے پس واضح شرعی دلائل کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتی۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سوال: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:

“يتوسل بالنبي ﷺ في دعائه، وإنه مجاب الدعوة عند قبره”

“انسان کو چاہیے کہ نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرے اور آپ ﷺ کی قبر مبارک پر دعا قبول ہوتی ہے۔” (الجامع الكبير للسيوطي، 6/276)

اس کی وضاحت کریں۔

جواب: التوسل بالنبي صلى الله عليه عند الإمام أحمد الإسلام سؤال وجواب https://share.google/zoWLRQdvehJQw17vR

اہل علم نے اس کا ذکر کیا ہے، اوپر لنک میں وضاحت ہے، باقی یہ موقف جمہور کے خلاف ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

وسيله بالذات والأموات قرآن وحدیث تعامل سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔
حتی کہ سابقہ شریعتوں میں بھی اس قسم کے وسیلہ کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
امام أحمد بن حنبل سے یہ عقیدہ باسند صحیح پیش کیا جائے۔
اور اگر یہ ان سے ثابت بھی ہو تو کسی شخصیت قسمتی کا قول وعمل ہمارے لئے حجت ونمونہ نہیں ہے۔
تیسری بات ہم اسے قرآن وحدیث پر پیش کریں گے اگر موافق ہو گا تو لے لیں گے اور اگر مخالف ہو گا تو ترک کر دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کی تائید قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ہرگز نہیں ہوتی ہے۔
جو وسیلہ جائز ہے وہ ہے۔
(1)ایمان اور رب العالمین کے اسماء وصفات کو وسیلہ بنانا۔
(2) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی محبت کو وسیلہ بنانا۔
(3) کسی صحیح العقیدہ باعمل شخصیت وعالم سے دعا کی درخواست کرنا۔
یہ صورتیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں سو انہیں پر اکتفا کرنا چاہیے ہے۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ