“ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں کے ساتھ محبت بھری مثالیں”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ انسانیت کے لیے ایک تاباں چراغ ہے، جو ہر دور میں روشنی بکھیرتی ہے، آپ کی زندگی کا ہر پہلو ہدایت کا خزانہ ہے، اور آپ کے ساتھ بچوں کا برتاؤ ایک ایسا گلزار ہے، جس میں محبت، رحمت اور شفقت کی خوشبو بسی ہوئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ معاملہ سراسر محبت اور مہربانی پر مبنی تھا، آپ کے دل میں بچوں کے لیے جو محبت تھی، وہ کسی لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتی، جس نے معاشرتی اقدار کو جلا بخشی۔ آپ کی زندگی میں بچوں کے لیے جو نرم دلی اور حسن سلوک تھا، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے ایک روشن نمونہ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ بچوں کا دل صرف محبت سے جیتا جا سکتا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک ہی ایک کامیاب معاشرتی نظام کی بنیاد ہے، آپ کی حیاتِ طیبہ میں بچوں کی تربیت، ان کے حقوق اور ان کے ساتھ تعلقات کا ہر پہلو ایک قیمتی تعلیم ہے جو آج بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ بچوں کی مسکراہٹوں کی اہمیت کو جاننا ہے، ان کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کی فطری خصوصیات کو سمجھنا کتنا ضروری ہے۔ میں سیرت سے چند مثال ذکر کرتا ہوں۔

(1) بچوں کی دلجوئی کرنا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكْنَى:‏‏‏‏ أَبَا عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهُ حَزِينًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُهُ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ مَاتَ نُغَرُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ”
[صحيح البخاري: 6129، 6203، صحيح مسلم: 2150 سنن ابي داود: 4969، یہ الفاظ سنن ابی داؤد کے ہیں]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابو عمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مر گئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس کی چڑیا مرگئی، تو آپ نے فرمایا: اے ابوعمیر! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو؟۔

(2) بچوں سے محبت کرنا
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“قَبَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْأَقْرَعُ:‏‏‏‏ إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ” [صحيح البخاري: 5997، صحيح مسلم: 2318]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا»

(3) نماز میں بچے کی آواز پر توجہ دینا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

“إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ” [صحيح البخاري: 708, 709، صحيح مسلم: 470]

«میں نماز شروع کردیتا ہوں۔ ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طویل کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کردیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہے»

(4) نماز میں بچی کو گود میں اٹھانا
سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

‏‏‏‏‏‏”أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا” [صحيح البخاري: 516، 5969 صحيح مسلم: 543]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بعض اوقات) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے»

(5) بچوں کے ساتھ کھیلنا
ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ سَنَهْ سَنَهْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ دَعْهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَبْلِي وَأَخْلِفِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِفِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِفِي” [صحيح البخاري: 3071, 3874]

«میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی، میں اس وقت ایک زرد رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا سنہ سنہ عبداللہ نے کہا یہ لفظ حبشی زبان میں عمدہ کے معنے میں بولا جاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ (جو آپ کے پشت پر تھی) کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت ڈانٹو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو (درازی عمر کی) دعا دی کہ اس قمیص کو خوب پہن اور پرانی کر پھر پہن اور پرانی کر اور پھر پہن اور پرانی کر عبداللہ نے کہا کہ چناچہ یہ قمیص اتنے دنوں تک باقی رہی کہ زبانوں پر اس کا چرچا آگیا»

(6) “مؤثر تربیت کے لیے ڈانٹ نہیں ، محبت ضروری ہے”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا أَلَّا صَنَعْتَ” [صحيح البخاري: 6038، صحيح مسلم: 2309]

«میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا»

(7) “دسترخوان پر بچوں کے ساتھ خوشگوار لمحے”
سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كُنْتُ غُلَامًا فِي حَجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ يَدِي تَطِيشُ فِي الصَّحْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏سَمِّ اللَّهَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا زَالَتْ تِلْكَ طِعْمَتِي بَعْدُ” [صحيح البخاري: 5376، صحيح مسلم: 2022]

«میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور (کھاتے وقت) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چناچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا»

(8) “بچوں کے لیے دعائیں: محبت کا حقیقی اظہار”
(1) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“جَاءَتْ بِي أُمِّي أُمُّ أَنَسٍ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَزَّرَتْنِي بِنِصْفِ خِمَارِهَا وَرَدَّتْنِي بِنِصْفِهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أُنَيْسٌ ابْنِي أَتَيْتُکَ بِهِ يَخْدُمُکَ فَادْعُ اللَّهَ لَهُ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَکْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ قَالَ أَنَسٌ فَوَاللَّهِ إِنَّ مَالِي لَکَثِيرٌ وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلَی نَحْوِ الْمِائَةِ الْيَوْمَ” [صحيح مسلم: 2481]

«میری امی جان مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور تحقیق انہوں نے مجھے اپنے آدھے دوپٹے کی چادر بنادی اور آدھے کو مجھے اوڑھا دیا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا انس ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی خدمت کرنے کے لیے پیش کرنے کو لائی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے اس کے لیے دعا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اے اللہ! اس کے مال اور اولاد کو بڑھا دے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میرا مال بہت کثیر ہے اور میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد کی تعداد آج کل تقریبا ایک سو ہے»

(2) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں۔

“أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْخَلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ وَضَعَ هَذَا؟ فَأُخْبِرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ” [صحيح البخاري: 143، صحيح مسلم : 2477]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں تشریف لے گئے، میں نے (بیت الخلاء کے قریب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہی باہر نکلا تو آپ نے پوچھا یہ کس نے رکھا؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا کی اور فرمایا:

“اللهم فقهه في الدين”

اے اللہ! اس عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کو دین کی سمجھ عطا فرما۔

(9) “بچوں سے گلے ملنا”
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:

“ضَمَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَدْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ” [صحيح البخاري: 3756]

“مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا کہ اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما”

(10) “بچوں کے دلوں میں توحید کا نور بسانا”
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:

“كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا غُلَامُ،‏‏‏‏ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ:‏‏‏‏ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ” [سنن الترمذي: 2516]

«میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہوگئے ہیں»

(11) “حالت نماز میں بچوں کی اصلاح”
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ:

“بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ” [صحيح البخاري: 699]

«میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنھا کے گھر رات گذاری ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا۔ میں (غلطی سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کردیا۔ (تاکہ صحیح طور پر کھڑا ہوجاؤں)۔
(12) “ہنسی مذاق کے ذریعے بچوں کے دل جیتنا”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

“يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مَحْمُودٌ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ:‏‏‏‏ يَعْنِي مَازَحَهُ” [سنن الترمذي: 1992]

«اے دو کان والے! محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مزاق کیا تھا»

(13) “بچوں کو کندھے پر اٹھانا: ایک محبت بھرا لمحہ
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“رَأَيْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَی عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ” [صحيح مسلم: 2422]

“میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر”

(14) “بچے کے منہ میں کلی کی محبت بھری مثال “

عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ قَالَ: “وَ هُوَ الَّذِي مَجّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ غُلَامٌ مِنْ بِئْرِهِمْ” [صحيح البخاري: 189]

ابن شہاب کہتے ہیں کہ «محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کے کنویں کے پانی سے ان کے منہ میں کلی ڈالی تھی»

(15) “انسانی اقدار کا اعلیٰ مظہر: یہودی بچے کی عیادت”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ أَسْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ،‏‏‏‏ وَهُوَ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ” [صحيح البخاري: 1356]

«ایک یہودی لڑکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ کیا مضائقہ ہے، ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چناچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا»

(16) “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے حقوق کا پاسداری کا عمل”
سیدنا سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرِبَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ” [صحيح البخاري: 2351]

«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا»

(17) “محبت کی لطافت: بچے کی ناک پونچھنا”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيهِ فَإِنِّي أُحِبُّهُ” [سنن الترمذي: 3818]

«نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے کہا: آپ چھوڑیں میں صاف کیے دیتی ہوں، آپ نے فرمایا: عائشہ! تم اس سے محبت کرو کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

(18) “بچے سے جدا ہونے کا کرب، آنکھوں کے قطرے اور دل کا درد”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

“وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَی أُمِّ سَيْفٍ امْرَأَةِ قَيْنٍ يُقَالُ لَهُ أَبُو سَيْفٍ فَانْطَلَقَ يَأْتِيهِ وَاتَّبَعْتُهُ فَانْتَهَيْنَا إِلَی أَبِي سَيْفٍ وَهُوَ يَنْفُخُ بِکِيرِهِ قَدْ امْتَلَأَ الْبَيْتُ دُخَانًا فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا أَبَا سَيْفٍ أَمْسِکْ جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمْسَکَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِيِّ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ وَقَالَ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ فَقَالَ أَنَسٌ لَقَدْ رَأَيْتُهُ وَهُوَ يَکِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَی رَبُّنَا وَاللَّهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّا بِکَ لَمَحْزُونُونَ” [صحيح مسلم: 2315]

«رات میرے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی میں نے اس لڑکے کا نام اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے نام پر رکھا پھر آپ نے وہ لڑکا ام سیف کو دے دیا جو کہ ایک لوہار کی بیوی تھی اور اس لوہار کو ابوسیف کہا جاتا تھا (ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسیف کی طرف چلے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا۔ جب ہم ابو سیف کے ہاں پہنچے تو وہ اپنی لوہے کی بھٹی دھونک رہے تھے اور ان کا گھر دھوئیں سے بھرا ہو تھا تو میں نے جلدی جلدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا کر اس سے کہا اے ابوسیف ٹھہر جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں تو وہ ٹھہر گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو بلایا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمایا جو اللہ نے چاہا انس فرماتے ہیں کہ میں نے اس بچے کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم توڑ رہا ہے (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آنکھیں اشک آلود ہیں اور دل غمزدہ ہے اور ہم وہ بات نہیں کہتے کہ جس سے ہمارا رب راضی نہ ہو اللہ کی قسم! اے ابراہیم! ہم تیری وجہ سے غمزدہ ہیں»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں:  نبی کریم ﷺ کا صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا جذبہ