سوال (1881)

منکرین حدیث اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار سے زائد شادیاں کہاں سے ثابت ہیں؟

جواب

سوال کی ابتداء میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ منکرین حدیث ہیں تو اس طرح کے لوگوں سے اس طرح کے مباحث پر بات نہیں کی جاتی ہے ، ان کے ساتھ حجیت حدیث پر بات کی جاتی ہے ، اگر آپ ان کو حجیت حدیث منوائی ہے تو ان شاءاللہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے ، یاد رکھیں کہ اگر وہ حدیث کا منکر ہے تو حدیث صریح اور غیر صریح کی بحث نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس نے کونسا ماننا ہے ، کیونکہ اس مسئلہ پر بے شمار احادیث ہیں ، لیکن اس کو بھی یہ اعتراض ہے کہ آپ اس کو قرآن سے ثابت کریں ، تو آپ اس سے حجیت حدیث پر بات کریں ، باقی اگر سمجھدار ہے تو آپ اس سے قرآن سے بات کریں ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ الّٰتِىۡۤ اٰتَيۡتَ اُجُوۡرَهُنَّ وَمَا مَلَـكَتۡ يَمِيۡنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيۡكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِىۡ هَاجَرۡنَ مَعَكَ وَامۡرَاَةً مُّؤۡمِنَةً اِنۡ وَّهَبَتۡ نَفۡسَهَا لِلنَّبِىِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنۡ يَّسۡتَـنۡكِحَهَا خَالِصَةً لَّـكَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِىۡۤ اَزۡوَاجِهِمۡ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ لِكَيۡلَا يَكُوۡنَ عَلَيۡكَ حَرَجٌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا” [سورة الاحزاب : 50]

«اے نبی! بے شک ہم نے تیرے لیے تیری بیویاں حلال کر دیں جن کا تو نے مہر دیا ہے اور وہ عورتیں جن کا مالک تیرا دایاں ہاتھ بنا ہے، اس (غنیمت) میں سے جو اللہ تجھ پر لوٹا کر لایا ہے اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں، جنھوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور کوئی بھی مومن عورت اگر وہ اپنا آپ نبی کو ہبہ کر دے، اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے۔ یہ خاص تیرے لیے ہے، مومنوں کے لیے نہیں۔ بے شک ہم نے جان لیا جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور ان عورتوں کے بارے میں فرض کیا جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، تاکہ تجھ پر کوئی تنگی نہ ہو اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے»
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
(1) : { يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ … :} اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد ﷺ دوسرے لوگوں کے لیے چار سے زیادہ بیویاں ممنوع قرار دیتے ہیں تو خود انھوں نے چار سے زیادہ شادیاں کیسے کر لیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ تمام بیویاں حلال کی ہیں جن کا آپ نے مہر دیا ہے۔ مراد وہ بیویاں ہیں جو آیت کے نزول کے وقت آپ کے نکاح میں تھیں۔ مطلب یہ کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے ہم ہیں اور آپ کے لیے اس شرط کو ختم کرنے والے بھی ہم ہیں۔ جن عورتوں سے آپ نے نکاح فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی، جن میں سے نو بیویاں آپ کی وفات کے وقت زندہ تھیں۔ دو بیویاں خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ ام المساکین ؓ وفات پا چکی تھیں۔ ان کے علاوہ چند عورتوں کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ کا ان سے عقد نکاح ہوا یا نہیں، مگر اس پر اتفاق ہے کہ وہ رخصت ہوکر آپ کے گھر نہیں آئیں۔ آپ ﷺ کی وفات کے وقت یہ نو امہات المومنین حیات تھیں : (1) عائشہ بنت ابی بکر ؓ (2) سودہ بنت زمعہ ؓ (3) حفصہ بنت عمر ؓ (4) ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ (5) زینب بنت جحش ؓ (6) جویریہ بنت الحارث ؓ (7) ام حبیبہ بنت ابی سفیان ؓ (8) صفیہ بنت حُیی ؓ (9) اور میمونہ بنت حارث ؓ ۔
(2) : ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’آپ ﷺ کی تمام بیویوں کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا، جو پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ ہاں ام حبیبہ بنت ابی سفیان ؓ کا مہر نجاشی رحمہ اللہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ صفیہ ؓ کا مہر انھیں آزاد کرنا تھا، وہ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں، پھر آپ ﷺ نے انھیں آزاد کر دیا اور اسی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا اور نکاح کر لیا۔ جویریہ بنت حارث ؓ بنو المصطلق سے گرفتار ہو کر آئی تھیں، انھوں نے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے جتنی رقم پر مکاتبت کی تھی آپ ﷺ نے انھیں اتنی رقم ادا کر کے ان سے عقد کر لیا تھا۔‘‘ (ابن کثیر)
(3) : { وَ مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ: ’’أَفَاءَ يُفِيْءُ‘‘} کا معنی ’’لوٹا کر لانا‘‘ ہے۔ ’’فے‘‘ عموماً ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر دشمن سے حاصل ہوں۔ بعض اوقات جنگ کے ساتھ ملنے والی غنیمت کو بھی ’’فے‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ ان اموال کو ’’فے‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمان کی ملکیت ہیں جو عارضی طور پر کفار کے قبضے میں ہیں، جب مسلمان انھیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنا ہی مال واپس لیتے ہیں۔ ان عورتوں کے آپ کے لیے حلال کرنے کے ذکر کے بعد جن کے ساتھ آپ نے مہر دے کر نکاح کیا تھا، تین قسم کی عورتیں حلال کرنے کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے پہلی قسم لونڈیاں ہیں، جو بطور فے آپ کو حاصل ہوئیں اور آپ نے لونڈی کی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ یہ ماریہ قبطیہ تھیں، جنھیں مقوقس مصر نے آپ کے لیے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ اس لیے وہ فے کے حکم میں تھیں، ان سے آپ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ {’’ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ ‘‘} کا یہ معنی نہیں کہ جو لونڈیاں بطور فے آپ کے پاس نہ آئیں وہ آپ کے لیے حلال نہیں، بلکہ ’’سراری‘‘ (لونڈیوں) کی تو آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے عام اجازت ہے۔ (قرطبی)
(4) : { وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ … :} پہلی بیویوں کے بعد آپ کے لیے حلال کی جانے والی عورتوں کی یہ دوسری قسم ہے، یعنی وہ عورتیں جو باپ یا ماں کی طرف سے آپ کی قریبی رشتہ دار ہیں اور انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے۔ یہ تفسیر اس لیے کی گئی ہے کہ آپ کے ماموں یا خالہ کی کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔ آپ کی والدہ کے خاندان بنو زہرہ کو آپ ﷺ کے ماموں کہا جاتا تھا۔
(5) : { وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ … :} یہ تیسری قسم ہے، یعنی مندرجہ بالا عورتوں کے علاوہ کوئی مومن عورت اگر اپنا آپ نبی ﷺ کو ہبہ کر دے، یعنی مہر کے بغیر نکاح میں دینے کی پیش کش کرے اور نبی ﷺ اس سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے لیے ولی اور مہر کے بغیر اس سے نکاح حلال ہے۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، وہ اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لیے پیش کر رہی تھی، تو انس رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے کہا : ’’اس کی حیا کتنی کم تھی؟‘‘ تو انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’وہ تجھ سے بہتر تھی، اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے لیے پیش کیا تھا۔‘‘ [ بخاري، الأدب، باب ما لا یستحیا من الحق للتفقہ في الدین : ۶۱۲۳ ]
(6) : { خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ :} یعنی یہ اجازت صرف آپ کے ساتھ خاص ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے وہی حکم ہے جو سورۂ نساء (۲۴) میں فرمایا : «اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ » یعنی بن مہر نکاح جائز نہیں۔ (موضح) اسی طرح چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت صرف آپ کے لیے ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔
(7) : { قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ :} یعنی عام مسلمانوں کو نکاح کے لیے جن شرائط کا پابند کیا گیا ہے، ان کاپابند رہنا ان کے لیے ضروری ہے اور وہ یہ کہ مہر، ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسائل سورۂ نساء (۳، ۴ اور ۲۴، ۲۵) میں گزر چکے ہیں۔
(8) : { لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ :} یعنی دعوت دین کی مصلحت کے لیے آپ کو ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ آپ پر زیادہ نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے۔ کیونکہ بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے آپ کو زیادہ نکاح کرنے ہوں گے۔ اہلِ علم نے رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے ساتھ نکاح میں جو مصلحتیں مدنظر تھیں ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور اسلام کے مخالفین رسول اللہ ﷺ کے تعددِ ازواج پر جو جو اعتراض کرتے ہیں ان کا مدلل جواب دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تصنیف ’’مقدس رسول‘‘ لاجواب کتاب ہے۔ الرحیق المختوم میں بھی یہ مصلحتیں اختصار کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔
(9) : { وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا :} یعنی ہم نے رفع حرج کے لیے آپ کو جو اجازتیں عطا فرمائی ہیں ان کا باعث ہماری مغفرت و رحمت کی صفت ہے۔ (ابن عاشور)
اس طرح آس آیت کی بھی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“تُرۡجِىۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُــئْوِىۡۤ اِلَيۡكَ مَنۡ تَشَآءُ” [سورة الاحزاب : 51]

«ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے»

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ فِي السَّاعَةِ الْوَاحِدَةِ مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُنَّ إِحْدَى عَشْرَةَ ، قَالَ : قُلْتُ لِأَنَسٍ : أَوَكَانَ يُطِيقُهُ ، قَالَ : كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّهُ أُعْطِيَ قُوَّةَ ثَلَاثِينَ ، وَقَالَ سَعِيدٌ : عَنْ قَتَادَةَ ، إِنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ : تِسْعُ نِسْوَةٍ . [صحيح البخاري : 268]

«نبی کریم ﷺ دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں ۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا ، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور ﷺ اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے ان سے نو ازواج کا ذکر کیا»

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جو شخص حدیث کا منکر ہے اس سے آپ سوال کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار سے زائد شادیاں ثابت کرو اگر وہ حدیث سے ہی بیان کرے تو اس کو کہیں کہ آپ تو حدیث کو مانتے نہیں تو اب کیسے حدیث سے ثابت کر رہے ہو ،۔یعنی کیسی عجیب بات ہے کہ حدیث کا انکار بھی کر رہا ہے اور پھر حدیث سے ہی ثابت بھی کر رہا ہے کہ آپ کی شادیاں چار سے زائد تھیں ، اس کو کہیں پہلے تو قرآن مجید میں سے آپ کی چار سے زائد شادیاں ثابت کرو پھر ہم بھی ثابت کردیں گے کہ آپ کو رخصت حاصل تھی ۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ