“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر، اہلِ درد کے لیے مشعلِ راہ”

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ہر انسان کا دکھ و تکلیف سے گذر ہوتا ہے، کبھی کبھی ایسے لمحات آ جاتے ہیں کہ انسان ہمت ہار لیتا ہے، ان پریشانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے، مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے، لیکن ایسے لمحات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک عظیم سہارا ہے، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم انسان کے ہر دکھ کا مداوا ہے
ہر زخم کا مرہم ہے، جب سیرت پر نظر پڑتی ہے تو اپنے دکھ و غم سارے ہلکے نظر آتے ہیں، انسان کی زندگی میں کسی طرح کا غم ہو، سیرت میں اس کو سہارا مل جاتا ہے، دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہی یتیمی کی حالت میں ہوتی ہے، پیدائش سے پہلے ہی والد کا شفقت سایہ اٹھ چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کی عمر تک والدہ ہی کی آغوش محبت میں رہے، چھ سال کے ہی تھے والدہ بھی اس دنیا سے چلی گئی تھی، چھ سال کے بچے ناز و نخروں کے ساتھ پلتے ہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عمر میں والدین کو کھو چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کی محبت و الفت دیکھی ہی نہیں تھی اور والدہ کی شفقت اور پیار نے زیادہ دیر ساتھ نہیں دیا تھا، یوں قسمت نے آپ کو تنہائی کے صحراء میں لا کر کھڑا کیا تھا، لیکن دادا عبد المطلب کے دل میں یتیم پوتے کے لیے جذبات تھے، دادا عبد المطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے، بڑوں کی طرح احترام کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کے ہوئے یہ سایہ شفقت بھی اٹھ چکا تھا، پھر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری لی، جس ذمے داری کو انہوں نے احسن طریقے سے تکمیل تک پہنچایا، یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن گزرا، نہ ماں کی آغوش کی گرمی نصیب ہوئی، نہ باپ کی شفقت کا سایہ میسر آیا، محبتیں ترس گئیں اور الفتوں کے دریچے بند رہے، نہ ناز و نعم میں پرورش ہوئی، نہ ممی ڈیڈی کے لاڈ پیار کا سا ماحول ملا، یہ وہ بچپن تھا جو آزمائشوں کے سنگ میل سے گزر کر صبر، وقار اور عظمت کا مینار بن گیا، بچپن کی ہر محرومی نے آپ کے دل میں انسانوں کے لیے وہ درد پیدا کیا، جو بعد میں رحمت للعالمین بن کر دنیا پر سایہ فگن ہوا۔
آگے چل کر جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے عقدِ نکاح ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا، لیکن مقدر کچھ اور ہی لکھ چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غم و اندوہ کے ایسے پہاڑ ٹوٹے کہ تینوں بیٹے بچپن ہی میں ایک ایک کر کے وفات پا گئے، یہ وہ کٹھن لمحات تھے، جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے سپردِ خاک کیا، دل زخمی تھا، آنکھیں اشک بار تھیں، مگر صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، یہ منظر انسانیت کو یہ درس دیتا ہے کہ عظیم ترین ہستیاں بھی آزمائشوں سے گزرتی ہیں، مگر ان کی عظمت صبر، یقین اور اللہ پر کامل بھروسے سے نمایاں ہوتی ہے، بیٹیوں میں سے رقیہ، ام کلثوم اور زینب رضی اللہ عنھن کی وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ہو گئی۔ والد کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا، ماں کی مامتا بھی زیادہ دنوں کا ساتھ نہ دے سکی، اور بیٹے بھی یکے بعد دیگرے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، بیٹیوں میں صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی باقی رہیں، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چند ہی دنوں کی مہمان تھیں۔
سوچنے کا مقام ہے، وہ ذات جو تمام مخلوقات کے لیے رحمت بن کر آئی، خود دنیا کے سب سے بڑے غموں سے گزری، ایک انسان کی زندگی میں اگر ایک قریبی عزیز کا بچھڑنا غم کا پہاڑ بن جاتا ہے، تو پھر وہ ذات جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لختِ جگر، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کو سپردِ خاک کیا ہو، کیسا صبر، کیسا حوصلہ، اور کیسی عظمت ہوگی!
جب تاجِ نبوت سر پر سجا، تو وہی چہرے جو کل تک اپنائیت کا دم بھرتے تھے، آج نفرت و عناد کا پیکر بن گئے، اپنوں نے بیگانگی اختیار کر لی، اور بیگانوں نے دشمنی کی ہر حد پار کر دی، طائف کی گلیوں میں پتھر برسائے گئے، لہو بہایا گیا، حتیٰ کہ جوتی مبارک خون سے بھر گئی، احد کے میدان میں دانت مبارک شہید کر دیے گئے، جسم اطہر زخموں سے چور ہوا، مگر لبوں پر شکوہ نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بات کرنے سے روکا گیا، سننے سے انکار کیا گیا، شعبِ ابی طالب میں قید کر کے بھوک و پیاس سے آزمایا گیا، مکہ جیسا محبوب وطن بھی چھوڑنا پڑا، مدینہ میں بھی آرام نہ تھا، بدر، احد، خندق، حنین، ایک کے بعد ایک جنگ نے دشمنی کی داستان رقم کی۔ لیکن ان سب اذیتوں، ان گنت قربانیوں اور دکھوں کے باوجود، زبان پر صبر کا نغمہ اور دل میں رحمت کی روشنی باقی رہی۔
بالآخر، بے شمار مصائب، تکالیف اور آزمائشوں کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچا دیا۔ آپ نے اپنی نبوت کی ذمہ داری اس کمال انداز سے ادا کی کہ حجة الوداع کے موقع پر صحابہ کرام کو گواہ بنایا اور فرمایا: “کیا میں نے دین پہنچا دیا؟ ” صحابہ نے بلند آواز سے گواہی دی: “جی ہاں، آپ نے پیغام پہنچا دیا۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: “اے اللہ! تو بھی گواہ رہ۔”
تاہم زندگی کے آخری لمحات بھی سخت ابتلا اور جسمانی تکلیف میں گزرے، بیماری اس قدر شدید تھی کہ اٹھنا دشوار ہو چکا تھا، نماز جیسے عظیم فریضے کے لیے بھی کھڑا ہونا ممکن نہ رہا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کئی نمازیں کی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کے فرائض انجام دیے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو تکلیف دیکھی، اس کے بعد کسی کی موت پر مجھے رحم نہ آیا۔” اس ایک جملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائشوں کی شدت اور عظمتِ صبر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تو سیرت صرف علم میں اضافہ نہیں کرتی ہے، سیرت زخموں پر مرہم رکھتی ہے، عزم کو بلند کرتی ہے، حوصلوں کو جوان رکھتی ہے۔

(افضل ظہیر جمالی)

یہ بھی پڑھیں: سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ دین کا جامع نمونہ