سوال (5040)

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَافِظُ الْأَسَدِيُّ، بِهَمْدَانَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ دِيزِيلَ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ثنا أَبِي، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: أَنْ يُثَبِّتُ قَائِمَكُمْ، وَأَنْ يَهْدِيَ ضَالَّكُمْ، وَأَنْ يُعَلِّمَ جَاهِلَكُمْ، وَسَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَكُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ فَصَلَّى، وَصَامَ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ دَخَلَ النَّارَ «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ. [التعليق- من تلخيص الذهبي] 4712- على شرط مسلم]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے بنی عبدالمطلب! میں نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں (1) تمہیں ثابت قدم رکھے۔ (2) تمہارے گمراہوں کو ہدایت دے دے۔ (3) تمہارے جاہلوں کو عالم بنا دے۔ اور میں نے یہ بھی دعا مانگی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سخی، بہادر اور رحم دل بنا دے۔ چنانچہ اگر کوئی آدمی رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہو اور روزہ دار ہو پھر وہ فوت ہو جائے لیکن وہ محمد ﷺ کے اہل بیت سے بغض رکھتا ہو تو وہ دوزخی ہے۔
یہ حدیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق حسن صحیح ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نقل نہیں کیا۔” [المستدرک 4712]

جواب

یہ روایت المعرفة والتاريخ للفسوي:1/ 505، السنة لابن أبي عاصم: 1546، المعجم الكبير للطبراني: 11412، مستدرک حاکم: 4712،أخبار مكة للفاكهي: 1038 أمالی ابن بشران الجزء الأول: 465 وغيره میں موجود ہے۔ یہ روایت ضعیف و منکر ہے۔
امام العلل ومعرفة الرجال أبو حاتم الرازی رحمة الله عليه نے کہا:

ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ، علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي:6/ 406،407(2624)

جب ایک ائمہ کبار سے علل حدیث کے ماہر وناقد امام کسی روایت کو منکر،غیر محفوظ،باطل کہہ دیں تو وہی منکر وباطل ہی ہے اس کے مقابل حاکم کی تصحیح کچھ اہمیت نہیں رکھتی ہے سہل فن جانتے ہیں کہ امام حاکم کے مستدرک حاکم میں تساہل عام اور خطرناک ہیں تو یہ روایت ثابت نہیں ہے۔
البتہ اس روایت کے آخری حصہ کی تائید ایک صریح حدیث سے ہوتی ہے۔

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: و الذي نفسي بيده، لا يُبغِضُنا أهلَ البيتِ أحدٌ إلا أدخلَه اللهُ النارَ، صحیح ابن حبان:(6978) سنده حسن لذاته

اور اس کے موافق عمومی ادلہ اس کے علاوہ ہیں۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ