سوال (5037)

ایک سوال ہے کہ کیا نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا مانگ سکتے ہیں؟

جواب

وسيلة بالذات والأموات قرآن وحدیث،تعامل صحابہ وسلف صالحین سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔
آپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان سے محبت میں مخلص ہونے کو وسیلہ بنا سکتے ہیں۔
ایمان، اخلاص سے کیا ہوا عمل اور کسی نیک سیرت باکردار صحیح العقیدہ باعمل عالم دین اور نیک بندے سے محبت کا وسیلہ اور نیک سیرت باعمل مخلص وصاحب تقوی سے اس کی زندگی میں دعا کر سکتے ہیں یعنی اس کی دعا کا وسیلہ جیسے الله اگر آپ کے آخری نبی سیدنا محمد کریم صلی الله علیہ وسلم پر صدق دل سے ایمان لایا اور ان سے محبت کے تقاضوں کے مطابق محبت کرتا ہوں تو میری فلاں پریشانی دور فرما دیں،مجھے فلاں چیز عطا فرما دیں یعنی اس طرح سے کوئی بھی خیر و بھلائی پر مبنی دعا کر سکتے ہیں۔
ان اقسام کے علاوہ کوئی اور وسیلہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے ہر امت میں یا تو براہ راست رب العالمین کو پکارا جاتا تھا یا إیمان بالله،إيمان الرسالة کو وسیلہ بنایا جاتا تھا یا اپنے نیک عمل کو جو خالص الله تعالی سے ڈرتے ہوئے الله تعالی کی رضا کے لئیے کیا گیا ہو۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا شرعا جائز نہیں۔
وسیلہ صرف تین قسم کا جائز:
1: نیک زندہ آدمی سے دعا
2: اللہ کے اسماء کا وسیلہ
3: اپنے نیک اعمال کا وسیلہ
1: نیک زندہ شخص سے دعا کروانا جائز ہے فوت شدہ کے وسیلہ سے جائز نہیں.

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏عَنْثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُسْقَوْنَ. [صحیح بخاری: 1010]

ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس ؓ نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ جب کبھی عمر ؓ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر ؓ عباس بن عبدالمطلب ؓ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم ﷺ کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس ؓ نے کہا کہ چناچہ بارش خوب ہی برسی۔

2: نیک اعمال کا وسیلہ جائز ہے:

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمُ الْمَطَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَحَدُهُمْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَجِيءُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيءُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي، ‏‏‏‏‏‏فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَفُرِجَ عَنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْآخَرُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَا تَنَالُ ذَلِكَ مِنْهَا حَتَّى تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّى جَمَعْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ:‏‏‏اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ وَتَرَكْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَفَرَجَ عَنْهُمُ الثُّلُثَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْآخَرُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَى ذَاكَ أَنْ يَأْخُذَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ انْطَلِقْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَسْتَهْزِئُ بِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهَا لَكَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَكُشِفَ عَنْهُمْ. [صحیح بخاری: 2215]

ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھ کی (اور اس غار کے منہ کو بند کردیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہوگئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ چناچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہوسکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کرسکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کرلی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے (نکلنے کا) راستہ بنا دے نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ چناچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کردیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا (کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جوار پیدا ہوئی کہ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آ کر مزدوری مانگی کہ اللہ کے بندے مجھے میرا حق دیدے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے (اس چٹان کو ہٹا کر) راستہ بنا دے۔ چناچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آگئے۔

3: اللہ کے ناموں کا وسیلہ:

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً‌ ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ [آل عمران: 8]

اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔
ان تین کے علاوہ کوئی وسیلہ ثابت نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ