سوال (2408)

اے اللہ میں تمام بیویوں سے انصاف کرتا ہوں لیکن میرا دل عائشہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت ہے اس کا متن مطلوب ہے؟

جواب

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:

“أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ” [سنن الترمذی: 1140]

«نبی اکرم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا»
اس حدیث کو امام ابوداؤد، امام ابن ماجہ، امام نسائی اور امام حاکم نے بھی نقل کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس تقسیم کو

“هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ”

فرما رہے ہیں، اس سے مراد معاشرتی برتاؤ ہے، یہ انسان کے اختیار میں ہوتا ہے، اس میں انسان مکلف بھی ہوتا ہے، یعنی برابری کرنی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ” [سورة النساء: 129]

کسی ایک بیوی کی طرف مکمل میلان جائز نہیں ہے، باریاں تقسیم کرنا، اخراجات مہیا کرنا اور ضروریات پوری کرنا یہ تمام ازواج میں برابر ہوتا ہے،

“فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ”

اس سے مراد دلی میلان ہے، جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ” [سورة الانفال: 63]

“اگر آپ زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا”
معلوم ہوا ہے کہ کسی کے دل میں گھر کرنے کے لیے زمین بھر خرچ کرنے کے بعد دل میں الفت پیدا کرنا بس کی بات نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہی الفت و محبت ڈالتا ہے، اب کسی بیوی کی حسن اخلاق، طبیعت و مزاج یا خوبصورتی کی وجہ سے دل میں محبت پیدا ہوجاتی ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، بندے کے اختیار میں نہیں ہے، اب یہ اختیار میں نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

“لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا” [سورة البقرة: 286]

«اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق»
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ” ہے، مزید اس میں اشارہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی طرف دلی میلان کا ہے، جس کے کئی ایک دلائل موجود ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کو سب سے پڑھ کر کون محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے محبت ہے۔
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مِنَ الرِّجَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوهَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ فَعَدَّ رِجَالًا” [صحيح البخاري: 3662]

“نبی کریم ﷺ نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو ؓ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ سے میں نے پوچھا، اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے۔ اس طرح آپ ﷺ نے کئی آدمیوں کے نام لیے”

فضیلۃ العالم محمد فہد محمدی حفظہ حفظہ