سوال (20)

شیخ صاحب میں نے ایک قاعدہ پڑھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ہے ، البتہ کوئی قرینہ ہو جو وجوب پر دلالت کرتا ہو تو اس وقت فعل وجوب پر دلالت کرے گا وگرنہ فعل کو افضل اور اکمل پر محمول کیا جائے گا ۔
اس قاعدے کی روشنی میں سوال یہ کرنا تھا کہ خطبہ جمعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجرد فعل ہے ، لہذا کھڑے ہو کر خطبہ دینا واجب نہیں بیٹھ کر بھی خطبہ دے سکتے ہیں ؟

جواب:

قاعدہ تو غالباً صحیح ہے ، مگر خطبے کا جو معاملہ ہے یہ ایک خاص عمل ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی کی ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْعُدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُومُ كَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو۔[صحیح البخاری : 920]
عبد الرحمن بن ابی الحکم بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا تھا تو کعب بن عجرہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا تھا ۔
وجوب کا فتویٰ بھلے نہ ہو مسنون تو ہے ، بلاعذر مسنون کو نہ چھوڑا جائے گا اور جب عذر آگیا ہے تو بات ختم ہوگئی ہے پھر اس کا حکم بدل جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ