سوال           (96)

شیخ صاحب کیا “نفاذ اسلام” یا اس کی متبادل اصطلاحات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یا نہیں ؟ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بعد کی خود ساختہ اصطلاح ہیں ؟

جواب

اس لفظ کو آپ نیا کہہ سکتے ہیں ، لیکن یہ صاف قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِى السِّلۡمِ کَآفَّةً  ۖ وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ‌ؕ اِنَّه لَـکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ”.[سورة البقرة : 208 ]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

رہا اس کا ذیلی شعبہ جات کہ فیصلے کیسے کرنے ہیں :

“وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡكٰفِرُوۡنَ”. [سورة المائدة : 44]

’’اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں‘‘۔

“وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ”. [سورة المائدة : 45]

’’جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔

“وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏”.[سورة المائدة : 47]

’’اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔

“فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا”. [سورة النساء : 65]

’’پس نہیں ! تیرے رب کی قسم ہے ! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑجائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا‘‘۔

اس کے بے شمار دلائل ہیں ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے آئیں ہیں ، اس کو نافذ کرنے سے کام بنے گا ، ایک بندہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے اور کام سارے اپنی مرضی کے کرے تو کوئی اس کو مسلمان نہیں کہے گا ، یہ اصطلاح ہی قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے ۔

فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ

حالات کے جبر نے نظریات ، سوچ و فکر اور کلام کو بدل دیا ہے ، معذرت کے ساتھ ہم جیسے طلباء کی نگاہیں جس طرف اٹھتی تھی ، اٹھتی ہیں اور اٹھتی رہیں گی ، ان اکابر کے  ہاں بھی افراط و تفریط پائی جا رہی ہے ، جنہوں نے ہمیں پڑھایا تھا اور سکھایا تھا ، بلکہ بہت سی کتابیں ہٹادی گئی ہیں ، اور الزام یہ دھرا جا رہا ہے کہ جو اس طرح کی بات کرے ، اس کی فکر ایسی ہے ، میں وہ لفظ استعمال نہیں کر رہا جو چلا ہوا ہے ، جو یہ بات کرے اس کی فکر ایسی ہے ، پرتشدد ہوگئی ہے ، وہ جو مرجئہ ، معتزلہ دندانتے پھر رہے ہیں ، حتی کہ ہمارے منبر و محراب تک ان کی رسائی حاصل ہوگئی ہے ، ہماری مجلسوں کا حصہ بن چکے ہیں ، وہاں تعامل امت کہاں چلا جاتا ہے ، افراط و تفریط ہے ، اس وجہ سے لوگ بات کرتے ہوئے گریزاں ہوتے ہیں کہ جی یہ کوئی چیز نہیں ہے خود ساختہ اصطلاح ہے ، یہ بات سمجھنی ہے کہ شریعت نے بطور اصطلاح بنا کہ نہیں دیا ہے ، لیکن مطالبہ تو کیا ہے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔

“يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِى السِّلۡمِ کَآفَّةً   ۖ  وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ‌ؕ اِنَّهٗ لَـکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ”.[سورة البقرة : 208 ]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے ۔

“قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡـكِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ حَتّٰى تُقِيۡمُوا التَّوۡرٰٮةَ وَالۡاِنۡجِيۡلَ وَمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ وَلَيَزِيۡدَنَّ كَثِيۡرًا مِّنۡهُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ طُغۡيَانًا وَّكُفۡرًا‌ۚ فَلَا تَاۡسَ عَلَى الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ”.(سورة المائدة : 68)

“کہہ دے اے اہل کتاب ! تم کسی چیز پر نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل کو قائم کرو اور اس کو جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، سو تو کافر لوگوں پر غم نہ کر”

اس آیت کا مفہوم واضح ہے کہ مطلقا کہہ دینا کہ یہ اصطلاح صحیح نہیں ہے ، کوئی ایسا حربہ اختیار کرنا کہ اس سے انتشار مزید بڑھ جائے ، یا خروج کی کیفیت ہوجائے یہ بھی غلط ہے ۔

بہت سوچ و فکر کی ضرورت ہے ، سوچ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہمارے اکابر پیش رفت کریں اور ہم ان کے دست و بازو بنیں آمین ثم آمین یا رب العالمین

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اقامت دین اور توحید حاکمیت جیسی اصطلاحات کی تشریح و تفسیر میں نکتہ نظر کا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن سرے سے اصطلاحات کا انکار کرنا، مناسب محسوس نہیں ہوتا۔

یہ بالکل اسی قسم کا اعتراض ہے، جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ توحید کا لفظ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے!

دوسری بات یہ سمجھ آتی ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخصوص نظریہ اقامتِ دین/نفاذ اسلام/ توحید حاکمیت کو ہی کل دین سمجھتے ہیں، لہذا اس کے ردِ عمل میں کچھ دوسرے لوگ سرے سے ان اصطلاحات کو ہی غلط قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

گویا ان اصطلاحات کے انکار میں ایک وجہ حرفیت پسندی اور سطحیت ہے، جبکہ دوسری وجہ کسی غلط سوچ وفکر کا غلط رد عمل ہے۔

لہذا یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم اقامتِ دین یا نفاذ اسلام کو کسی مخصوص نظریے یا اس کے رد عمل کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اس طرح سمجھتے ہیں جیسا کہ کتاب وسنت اور منہج سلف کا تقاضا ہے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ