سوال (1327)
نفاذ اسلام کے لئے کوشاں سیاسی تنظیم مثلاً قرآن و سنہ موومنٹ وغیرہ کو زکوۃ دینا یا کمپین میں خرچ کرنا جائز ہے ؟
جواب
سوال میں متعین طور پر ایک جماعت کا نام لے کر پوچھا گیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تنظیمیں، جماعتیں، ادارے بذات خود کوئی زکاۃ کا مصرف نہیں ہیں، بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اگر تو وہ مصارف زکاۃ پر کام کر رہے ہیں، تو انہیں ان مدات میں زکاۃ دی جا سکتی ہے، ورنہ نہیں۔ مثلا مدارس کو ہم زکاۃ دیتے ہیں کیونکہ فقراء و مساکین طالبعلم وہاں پڑھتے ہیں اور انہیں کھانے پینے اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات و سہولیات دی جاتی ہیں!
اسی طرح بہت ساری جماعتوں کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ وہ فقراء و مساکین کی خدمت، مدارس میں طلبہ و اساتذہ کی کفالت اور جہاد فی سبیل اللہ کا کام کر رہی ہیں، لہذا وہ اس مد میں زکاۃ اکٹھی کرتے ہیں!
اگر کوئی تنظیم یا جماعت یا ادارہ زکاۃ کے مصارف ثمانیہ (تمام یا بعض) کے حوالے سے کام کر رہا ہو، تو انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے، بالکل اسی دلیل سے جس دلیل سے مدارس کو زکاۃ دی جاتی ہے اور وہ اس اعتبار سے وکیل ہوں گے کہ اصحاب ثروۃ سے زکاۃ اکٹھی کرکے مستحقین تک ان کا حق پہنچاتے ہیں!
ایک موقف یہ ہے کہ ’فی سبیل اللہ’ کی مد کو صرف جہاد و قتال فی سبیل اللہ میں محصور کرنے کی بجائے، اسے مزید خیر کے کاموں میں بھی وسعت دے دی جائے، لیکن یہ موقف کمزور ہے، کیونکہ اس سے تو خیر کا ہر کام ہی فی سبیل اللہ قرار پائے گا، اور اس سے زکاۃ کے مصارف متعین کرنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔ واللہ اعلم۔
بعض تنظیمیں اور جماعتیں زکاۃ و صدقات اکٹھی کر کے سیاسی مقاصد اور تنظیمی مصلحتوں کے لیے صرف کرتے ہیں، مثلا جلسے جلوس، لوگوں کو کھانا کھلانا، افطاریاں سحریاں کروانا، اشتہارات وغیرہ، زکاۃ کا یہ استعمال میرے علم کے مطابق کسی بھی عالم دین کے نزدیک درست نہیں ہے۔
نفاذِ اسلام اور اصلاح معاشرہ کے لیے جدو جہد ایک عظیم مشن ہے، اس کے لیے ممد و معاون تمام درست ذرائع اور وسائل اختیار کرنے چاہییں، لیکن زکاۃ اور متعین صدقات و خیرات کی بجائے اسی غرض کے لیے لوگوں کو توجہ دلا کر فنڈنگ کرنی چاہیے!
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ