نہج البلاغہ نامی کتاب کی حیثیت
’’نہج البلاغہ‘‘ پانچویں صدی ہجری کے علی بن حسین بن موسی علامہ شریف مرتضی (436ھ) نامی معتزلی و رافضی عالم کی تصنیف کردہ کتاب ہے، بعض اہل علم کے نزدیک اس کے بھائی محمد بن حسین بن موسی جو کہ سید شریف رضی کے نام سے مشہور ہے اس کی تصنیف ہے، اس میں بڑے ادبی پیرائے میں بہت سے خطبات و مکتوبات اور حکم و نصائح جمع کر کے انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، روافض کے نزدیک یہ مذہبی حیثیت کی حامل ہے۔
اہل السنہ کے ہاں یہ کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں رہی، کیوں کہ؛
أولا : اس کی کوئی سند نہیں اور اس کے مولف نے تین صدیوں بعد اسے ترتیب دیا ہے ۔
ثانیاً : اس کا مولف خود بھی غیر معتبر اور غالی رافضی ہے، اگر وہ ان روایات کو باسند بیان کرتا تب بھی اس کی روایت نا قابلِ قبول ہوتی۔
ثالثا : اس کتاب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں جن کا ان سے صادر ہونا محال ہے، بالخصوص بعض جگہوں پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنے آپ کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پر خلافت میں فوقیت دینا مروی ہے ۔
رابعاً : اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبراء بالخصوص شیخین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر اصحاب کی تنقیص موجود ہے ۔
خامسا : اس میں بہت سی اچھی باتیں اٹھا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں جبکہ وہ کلام دیگر لوگوں کا ہوتا ہے ۔ وغیر ذلک من الامور.
اس کے متعلق چند علماء کا کلام ملاحظہ ہو؛
✿ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں :
’’اس بات میں اختلاف ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جھوٹی کتاب نہج البلاغہ کو گھڑنے والا یہی مرتضی شریف ہے یا اس کا بھائی رضی ہے۔‘‘ (تاریخ الاسلام : 9/ 557)
نیز اس مصنف کے متعلق فرماتے ہیں :
‘‘اس کی تصانيف میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم اور ان کی تکفیر موجود ہے۔‘‘ (ایضاً)
اسی طرح فرماتے ہیں :
’’مرتضی شریف پر کتاب نہج البلاغہ گھڑنے کا الزام ہے، اور اس کی کتاب کا مطالعہ کرنے والا پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ یہ امر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے، اس میں سیدین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر واضح گالم گلوچ اور تنقیص موجود ہے ۔ متناقض و کمزور باتوں کا مجموعہ ہے، اس میں ایس عبارات بھی موجود ہیں کہ جو شخص قریشی صحابہ اور بعد والے متاخرین کی اسلوب میں فرق جانتا ہے اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کتاب کا اکثر حصہ جھوٹ ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال : 3/ 124)
✿ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں :
’’نہج البلاغہ کے مؤلف نے جو اکثر خطبات نقل کیے ہیں وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہیں، علی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ ایسی باتیں کریں، لیکن اِن (رافضیوں) نے یہ سمجھ کر جھوٹ گھڑے کہ یہ مدح ہے، حالانکہ نہ تو یہ سچ ہے اور نہ ہی مدح ۔۔۔۔ نہج البلاغہ کے مولف اور اس جیسوں نے لوگوں کی بہت سی باتیں پکڑ کر انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سر تھونپ دیا، ان میں بعض باتیں ایسی ہیں کہ جو سیدنا علی سے مروی ہیں کہ انہوں نے کہی ہیں اور بعض ایسی باتیں ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کے لائق تو ہیں لیکن وہی باتیں دوسرے لوگوں نے بھی کہی ہوئی ہیں، اسی لیے جاحظ کی البیان والتبیین میں بعض باتیں ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے منسوب ہیں جبکہ نہج البلاغہ کے مؤلف نے انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمے لگا دیا ہے ۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نہج البلاغہ میں جو خطبے منقول ہیں وہ اگر واقعی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی باتیں ہوتیں تو وہ اِس (نہج البلاغہ کے) مصنف سے پہلے اسانید وغیرہ کے ساتھ ان سے منقول ہوتیں ۔ جس شخص کے پاس مرویات کا تجربہ ہے وہ جانتا ہے کہ اس میں موجود اکثر باتوں کا اس کتاب سے پہلے کوئی وجود ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ ہے، وگرنہ اس ناقل کو چاہیے کہ وہ بیان کرے کہ کس کتاب میں ان باتوں کا ذکر ہے؟ کس نے انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اس کی سند کیا ہے؟ رہا محض دعوی تو یہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے، اور جس شخص کے پاس اہل حدیث کے طریقہ کار کی معرفت و تجربہ موجود ہے اور باسند آثار و منقولات کو اور سچ و جھوٹ کو جانتا ہے وہ بخوبی واقف ہے کہ یہ (رافضی لوگ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یہ منقولات اور جھوٹ و سچ میں فرق کرنے سے بالکل کورے ہوتے ہیں۔‘‘ (منہاج السنہ : 8/ 55)
⇚⇚ اسی طرح جب رافضی مصنف نے نہج البلاغہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’ابو بکر نے یہ لباسِ خلافت خود اوڑھ لیا حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ مجھے وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک چکی میں درمیانی سیخ کو حاصل ہوتا ہے (یعنی میں خلافت کا زیادہ حق دار تھا)۔‘‘
تو اس پر شیخ الاسلام رحمہ اللہ جوابا فرماتے ہیں :
’’ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : پہلی بات : اس قول کی سند کہاں ہے ؟جس میں ثقہ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک اس قول کو ثقات سے نقل کیا ہو۔ ایسا ہرگز اس روایت میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا ۔
البتہ یہ قول نہج البلاغہ اور اس جیسی بعض دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ نہج البلاغہ کے اکثر خطبات خود ساختہ اور جھوٹے گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تھوپ دیئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کسی قدیم کتاب میں درج نہیں ۔ اور نہ ان کی کوئی سند معروف ہے۔ تو پھر ناقل نے کہاں سے نقل کیا ہے ؟
یہ خطبات اسی طرح ہیں جیسے کوئی شخص کہے کہ میں علوی یا عباسی ہوں ۔ حالانکہ ہمیں علم ہو کہ اس کے اسلاف میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کوئی دعوی [اس سے پہلے کیا گیا تھا]۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔ اس لیے کہ نسب اپنی اصل کے اعتبار سے جانا پہچانا ہوتا ہے اور اسی طرح وہ اپنی فرع سے مل جاتا ہے۔
ایسے ہی منقولات کے لیے ضروری ہے کہ صاحب قول سے لیکر ہم تک اس کی معروف سند ہونی چاہیے۔ اگر کوئی انسان کتاب لکھے ؛جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے بہت سارے خطبات جمع کردے ۔لیکن اس سے پہلے کسی بھی دوسرے فرد نے یہ خطبات کسی معروف سند سے نقل نہ کیے ہوں ؛ تو ہم یقینی طور پر اس کے جھوٹا ہونے کو جان لیتے ہیں ۔یہی حال نہج البلاغہ کے خطبات کا ہے ۔ ہمیں یقینی طور پر علم حاصل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس فرمایا تھا۔ اس موقع پر ہمارامقصد اس کا جھوٹ واضح کرنا نہیں ‘ بلکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی صحیح سند پیش کی جائی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر کسی ایسی چیز کی تصدیق کو واجب نہیں کیا جس کے سچا ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ نہج البلاغہ کے خطبات میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو کہ بالاتفاق ممتنع ہیں ۔اور خصوصاً جبکہ ’’ تکلیف ما لا یطاق‘‘کا قول بھی ممتنع ہو۔ بیشک یہ سب سے بڑی ’’تکلیف مالایطاق ‘‘ ہے ۔ پھر ہم چوتھی صدی ہجری میں جب ہر طرف جھوٹے لوگ بڑھ گئے تھے ؛ اس وقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دعوائے خلافت کو ان لوگوں کے اقوال کی بنا پر کیوں کر تسلیم کرسکتے ہیں جو متہم بالکذب تھے؟[چوتھی صدی ہجری میں ] ان شیعہ لوگوں کی حکومت عمل میں آچکی تھی ؛ جہاں پر یہ لوگ جس قسم کا بھی جھوٹ بولتے اسے پذیرائی حاصل ہوتی۔ ان کے ہاں اقوال کی سچائی کا مطالبہ کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔اس مسئلہ میں ہمارا یہ بنیادی جواب ہے۔ یہ ہمارے اور اللہ کے مابین ہے۔‘‘ (منہاج السنہ : 7/ 86، مترجم : 1/ 73)
⇚امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463ھ) نے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ان اکثر خطبات کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ (الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع : 2/ 161)
⇚مشہور مؤرخ علامہ ابن خلکان (681ھ) نے بھی اس کتاب کے جھوٹ و مشکوک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (وفیات الاعیان : 3/ 313) اور یہی بات علامہ صفدی (764ھ) نے بھی کی ہے۔ (الوافی الوفیات : 20/ 231)
نیز دیکھیں : البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 15/ 695، لسان المیزان لابن حجر : 3/ 124، ابجد العلوم لصدیق حسن خان : 3/ 67)، البیان لاخطاء بعض الکُتّاب للفوزان، 1/ 98 – 112) وغیرہ ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہج البلاغہ نامی کتاب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی منسوب ہے، اس کا کوئی سر پیر نہیں اور نہ ہی اس کے مصنف کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ و اللہ أعلم۔
(حافظ محمد طاھر)
یہ بھی پڑھیں: امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ کا مقام اور طلباء کے لیے نصیحت