ناخن تراشنا ۔۔ فطرت اور سنت تحریر
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن
1️⃣ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔
اور انسانی شکل وصورت کو احسن تقویم ،قرار دیا ہے ،یہ رب کریم کی تخلیق کا شاہکار اور ماسٹر پیس ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو کچھ بنیادی نوعیت کی ایسی ہدایات عطا فرمائیں جس سے انسان کا یہ تخلیقی حسن قائم ودائم رہے اور ویسے نظر آئے جیسے اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
ان میں سے چند چیزوں کا خصوصی طور پر احادیث میں تذکرہ ہے۔اور انہیں خصال فطرت کہا گیا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث 5889 میں ان میں پانچ کو مینشن کیا گیا ہے۔
۔۔پیدائش کے وقت ختنہ
۔۔زیر ناف بالوں کی صفائی
۔۔بغلوں کے بال صاف کرنا
۔ناخن تراشنا
اور مونچھیں کاٹنا
۔۔
آپ غور کیجیے اس حدیث میں ناخن تراشنے کو فطرت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
فطرت سے کیا مراد ہے اس پر صحیح بخاری کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طویل اور خوب صورت تحقیق پیش کی ہے۔
ان سب اقوال کو۔ جمع کرنے اور ان میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے
۔۔کہ ان چیزوں کا اہتمام کرنے سے انسان اس اعلی واشرف شکل وصورت اور ہیئت کی حفاظت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور جس حالت میں رب کریم انسان کو پیدا کرتاہے ۔
فطرت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اس پر تمام انبیاء عمل کرتے آئے ہیں اور ہمیشہ سے یہ چیزیں دین وشریعت کا حصہ رہی ہیں ۔
ناخن تراشنا بظاہر ایک سادہ اور معمولی سا عمل محسوس ہوتا ہے لیکن در حقیقت یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔
ان میں سے کچھ چیزیں مردوں کی فطری ہیئت کے ساتھ خاص ہیں اور کچھ میں مرد وزن یکساں ہیں ۔
ناخن تراشنا ان خوبیوں میں سے ہے جن میں مرد وخواتین برابر ہیں ۔
تو سب سے پہلی حقیقت یہ ثابت ہوئی کہ ناخن تراشنا شروع ہی سے رب کریم کو پسند رہا ہے اور یہ ہر دور میں دین وشریعت کا حصہ رہا ہے ۔
2️⃣دوسری بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بے ہنگم بال ،بڑھے ہوئے ناخن ، لمبی مونچھیں وغیرہ یہ تو جانوروں ،درندوں اور حیوانوں کی فطرت ہے۔جو لوگ یہ چیزیں پسند کرتے ہیں درحقیقت انسانی سرشت اور فطرت سے نکل کر حیوانی صفت کو اختیار کرتے ہیں ۔
3️⃣یہ صفائی، پاکیزگی اور طہارت کا بھی تقاضا اور حصہ ہے۔
لمبے ناخنوں کو صاف رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔جتنا بھی اہتمام کر لیں کچھ نہ کچھ ذرات ،حتی کی نجاست لمبے ناخنوں کے نیچے جمع رہتی ہے۔
4️⃣اس میں صحت وعافیت بھی مضمر ہے۔جتنی صفائی اچھی ہوگی ،جراثیم اور گندگی سے حفاظت ہوگی اور صحت بھی اچھی رہے گی۔
5️⃣لمبے لمبے ناخن جنگلات میں رہنے والے وحشی قسم کے انسانوں کی عادت رہی ہے۔ اسی طرح وہ مذاہب جو انبیاء کی تعلیمات سے محروم ہیں اور انسانوں کے خود ساختہ ہیں ان کے بعض فالوررز بھی لمبے ناخن پسند کرتے ہیں ۔
اس لحاظ سے یہ بعض کفار سے مشابہت ہے۔
جدید دور کے وہ کفار جو انسانی فطرت کے باغی ہیں ،ان میں بھی یہ کلچر پروموٹ کیا گیا ہے۔
اس لحاظ سے یہ ان کی بھونڈی نقالی ہے۔
6️⃣بعض ماہر راقی اور عامل حضرات جو جادو جنات کے توڑ سے وابستہ ہیں ان کا یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے ،کہ لمبے ناخن
چڑیل وجنات کو بہت پسند ہیں ۔یہ کوئی حدیث نہیں ،بس ان کا مشاہدہ ہے ،آپ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن بہرحال ان کے ہاں یہ معروف ہے ،اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شیاطین کو گندگی پسند ہے اور لمبے ناخنوں کے نیچے بالعموم کچھ نہ کچھ گندگی جمع ہو جاتی ہے ،ممکن ہے اس لحاظ سے انہیں یہ جگہ پسند ہو ۔
۔
ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج کل کی بچیاں اور بچے کیوں اس عجیب حیوان نما شکل کو پسند کرتے ہیں ؟
شاید میڈیا کا اثر ہے یا غیر مسلموں کی نقالی یا پھر انسان ویسے ہی اپنی حقیقی فطرت سے دور ہوتا جا رہا ہے ؟!!
6️⃣مزید برآں ناخن جتنے لمبے اور گندے ہوں گے اسی قدر روحانیت سے دوری اور شیاطین و جنات سے قربت ہوگی ،وسوسے اور طرح طرح کے مسائل پیدا ہوں گے۔
امید ہے کہ ان حقائق کو جانے کے بعد کوئی بیٹا اور بیٹی ناخنوں کو لمبا کرنے کا حیوانی شوق نہیں پالے گا ؟
7️⃣بعض بیٹیوں نے سوال کیا ہے کہ ناخن کتنے لمبے کیے جا سکتے ہیں ؟
یاد رہے کہ ان کی لمبائی کی لمٹ شریعت نے مقرر نہیں کی ۔
کاٹنے کی ترغیب دی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جتنے چھوٹے ہوں بہتر ہے۔
سلف صالحین کا معمول تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دفعہ کاٹتے تھے ۔عموما جمعے کے دن۔تاہم اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ۔البتہ جمعے کے دن عمومی صفائی ،غسل کی ترغیب سے ہمارے اسلاف نے یہ خوب صورت معمول بنایا تھا۔
بہر حال ان کی لمبائی کا کوئی سائز طے نہیں ۔یر شخص کی اپنی فطری ساخت ہے اور ناخن بڑھنے کی رفتار بھی ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے۔اس لیے شریعت نے عمومی ترغیب دی ہے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ناخن انگلیوں کے سرے سے جیسے ہی بڑھنے لگیں انہیں کاٹ لیا جائے تو بہتر ہے ۔
8️⃣زیادہ سے زیادہ کی حد صحیح مسلم کی حدیث 258 میں چالیس دن مقرر کی گئی ہے۔
امام قرطبی اور نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے لکھا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ چالیس دن تک نہ کاٹیں ،بلکہ جیسے ہی کچھ بڑھیں تراش لیے جائیں ،اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ اس سے زیادہ کسی صورت لا پرواہی اختیار نہ کی جائے۔
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے السراج الوہاج 2/87 میں لکھتے ہیں
میں نہیں جانتا کہ کوئی بھی مسلمان اتنی طویل مدت تک خوش دلی سے صفائی وطہارت کو ترک کیے رکھتا ہو!
ہاں ایک کافر قوم سکھوں کے بارے معروف ہے کہ وہ اپنے بدن کے کسی حصے کے بال ویسے ہی نہیں کاٹتے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ ناخن کاٹنا انسانی فطرت ہے اور انبیاء کی سنت ،بنیادی طور پر نہ ان کی کٹنگ کے لیے کوئی دن مقرر ہے ،نہ ہی کوئی وقت اور نہ ہی ان کی لمبائی کا کوئی سائز ،ہرمسلمان مرد وعورت کی ذمہ داری ہے کہ جیسے ہی کچھ بڑھیں کاٹ دیں ۔سلف صالحین ہفتہ وار ناخن تراشتے اور بال کاٹنے کا اہتمام کرتے تھے۔
آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم اس انسانی فطرت ,،نبوی سنت اور شرعی حکم پر عمل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے آمین ۔