سوال (2132)
کیا عصر نماز کے بعد نفل ادا کیے جا سکتے ہیں؟
جواب
عصر کے بعد نوافل پڑھنے میں حرج نہیں ہے، جو حدیث میں ممانعت ہے، وہ سورج ڈھلتے وقت کی ہے، جب سورج بلند ہو تو پڑھ سکتے ہیں. لیکن جب زرد ہو جائے(ڈھلنے لگے ) تو منع ہے.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ” [سنن ابي داؤد: 1274]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، سوائے اس کے کہ سورج بلند ہو»
ایک روایت میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ عصر کے بعد نفل پڑھنے والوں کو مارتے تھے. پہلی بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مارنا مطلقاً تھا ممنوع اوقات میں نماز پڑھنے پر، اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی [صحیح مسلم: 1931] موجود ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو عمر رضی اللہ عنہ کے مارنے کی اصل وجہ معلوم نہ تھی.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَحَرَّی طُلُوعُ الشَّمْسِ وَغُرُوبُهَا” [صحيح مسلم: 1931]
“حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہم ہوگیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع اور سورج کے غروب ہونے کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے”
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو اصل وجہ معلوم ہوئی مارنے کی تو انہوں نے اس عمل کو پسند کیا ہے۔
امام سعید بن جبیر تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا کو دیکھا وہ عصر کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتی تھیں اور میمونہ رضی اللہ عنھا بیٹھ کر چار پڑھتی تھیں.
یہ روایت “الاوسط لابن منذر” میں موجود ہے، اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔
نیز عصر کے بعد اگر کوئی نوافل پڑھتا ہے. تو جب تک سورج زرد نہ ہونے لگے(یعنی ڈھلنے سے پہلے) تو یہ جائز ہے
ھذا کان ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
نمازِ عصر کے بعد سے لے کر سورج کے زرد ہونے تک پڑھ سکتے ہیں۔ زرد ہونے کے بعد غروب تک نہیں۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ