سوال (3730)
نماز جنازہ کے اندر ایک طرف سلام پھیر سکتے ہیں؟
جواب
نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا اولی اور افضل ہے، باقی دوسرے سلام کا جواز ہے، پہلے کے ادلہ استذکار، زاد المعاد اور مستدرک حاکم میں مل سکتے ہیں۔ اس موضوع پر ہمارے دوست فضیلۃ الشیخ ابراہیم ربانی حفظہ اللہ نے ایک کتاب بھی لکھی تھی کہ ایک طرف سلام پھیرنا راجح ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ جیسا کہ سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل منقول ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، يُحَدِّثُ ابْنَ الْمُسَيَّبِ *قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ تُكَبِّرَ ثُمَّ تَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ ثُمَّ تُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ تُخْلِصَ الدُّعَاءَ لِلْمَيِّتِ وَلَا تَقْرَأْ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى ثُمَّ تُسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ عَنْ يَمِينِهِ»
سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ آدمی تکبیر کہے اور پھر فاتحہ پڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے پھر میت کے لیے اخلاص سے دعا کرے، پہلی تکبیر کے علاؤہ قرات نہ کرے پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھیر دے۔
[المنتقى – ابن الجارود – ط الثقافية ١/١٤١ — ابن الجارود (ت ٣٠٧)، سندہ صحیح]
صحابی جس چیز کو سنت قرار دیں اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہوتا ہے۔
تنبیہ: دو طرف سلام پھیرنے والی روایات تو موجود ہیں۔ لیکن ان میں ضعف ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا ہی سنت ہے۔
[دیکھیے المنتقی لابن الجارود : 540، مصنف عبد الرزاق: 6443 صحيح]
سیدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہ سے بھی نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا ثابت ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺴﻬﺮ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﻨﺎﺯﺓ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻜﺒﺮ، ﻓﺈﺫا ﻓﺮﻍ ﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ ﻳﻤﻴﻨﻪ ﻭاﺣﺪﺓ، [مصنف ابن أبي شيبة: 11837 سنده صحيح]
سيدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے بھی ایک سلام پھیرنا ثابت ہے۔
حدثنا وكيع والفضل بن دكين عن سفيان عن إبراهيم بن المهاجر عن مجاهد عن ابن عباس: أنه كان يسلم على الجنازة تسليمة، [مصنف ابن أبي شيبة: 11839 سنده حسن لذاته]
سيدنا واثلة رضی الله عنہ سے سے ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے۔
(دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ: 11851 سنده حسن لذاته )
تابعین سے امام محمد بن سیرین،امام سعید بن جبیر،امام مکحول سے ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے۔
دیکھیے مصنف ابن أبی شیبہ: 11845، 11847، 11852 ان تینوں کی اسانید صحیح ہیں۔
بعض سلف صالحین سے دو طرف سلام پھیرنا ملتا ہے جو اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے، تو دو طرف سلام پھیرنے کی مرفوع روایات ضعیف ومعلول ہیں اس لئے نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا سنت اور افضل ہے اور دو طرح سلام پھیرنا جائز ہے۔
آج ہمارے ہاں عموما جواز والے عمل کو اختیار کیا گیا ہے اور جو سنت و افضل طریقہ حدیث اور تعامل صحابہ کرام سے ثابت ہے اسے اغلبا ترک کر دیا گیا ہے جبکہ اسے ہی عام کرنے کی ضرورت ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
بعض فقہاء نے ایک زمانہ تک اس مسئلہ پر عدم اختلاف نقل کیا ہے، تاکہ بعض نے اسے عام نمازوں پر قیاس کر لیا اور دو جانب سلام کا فتویٰ دیا ہے۔
واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ