سوال (572)

نماز جنازہ سرا اور جھرا دونوں طرح جائز ہے ، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ سرا والی روایت زیادہ قوی ہےاور اب تو جنازے سے قبل عموما اس کے متعلق اب علماء کرام عوام کو بتا بھی دیتے ہیں ، نماز جنازہ میں پیچھے آمین کہنا بھی کہیں ثابت نہیں، بجائے آمین کہنے کے ہر شخص کو چاھیے کہ وہ نماز جنازہ کی دوائیں یاد کرے یہ بھی بتاتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا اعتراف اور اقرار علماء اہل الحدیث ہی کرتے ہیں ، بلکہ میں ایک روز سن رہا تھا جماعت کے بہت بڑے خطیب و مناظر یہ بھی دعوہ چیلنج کے طور پر فرما رہے تھے کہ کوئی ایک ایسی روایت لا کر دیکھاو جس پر اھل حدیث عمل نہ کرتے ہوں یا کسی حدیث کی مخالفت کرتے ہوں۔۔ اس کے باوجود ہمیشگی جھرا پر کیوں ہے؟

جواب

نمازہ جنازہ کی سری اور جھری میں سختی نہیں ہونی چاہیے ، باقی نماز جنازہ کے حوالے سے اولی اور بہتر یہ ہے کہ سری پڑھی جائے جیسا کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے ۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً،ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا،وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے،پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیر دے۔ (سنن النسائي : 1991)
تعلیم کی غرض سے نماز جنازہ جہرا پڑھی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے عمل سے ثابت ہے ۔
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ

صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ.

ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورة فاتحہ “ذرا بلند آواز سے” پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔ (صحیح البخاری : 1335)

عن طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ،قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ،فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا،فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ،فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «سُنَّةٌ وَحَقٌّ»

حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا۔انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور (دونوں) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں۔جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: یہ سنت اور حق ہے۔ (سنن النسائي : 1989)
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں :

أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ . فَقُلْتُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی تو انہوں نے سورة فاتحہ پڑھی ۔ میں نے ان سے (اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ (سنن الترمذي : 1027)
تعلیم کی غرض سے جہر نماز جنازہ پڑھنے میں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
باقی پیچھے آمین جو کہتے ہیں اس میں سب سے اولی ، بہتر اور مسنون یہ ہے کہ دعائیں پڑھنی چاہیں ، اب جن لوگوں کو دعا یاد نہیں ہے ، عمومی ادلہ یہ کہتے ہیں کہ آمین کہنے والا دعا میں شریک ہوجاتا ہے ، اب وہ اس طرح شرکت کرلیں، بس یہ ہے کہ اس میں ایسا نہ ہو کہ نئی صورت بن جائے ، کوئی سری طور پر کہہ لے ، کسی کی آواز تھوڑی بہت بلند ہوگئی تو بھی گنجائش ہے ، جو سب کو آمین کہلوانے کا کہے یہ بھی محل نظر ہوگا ، بدعت کا فتویٰ دینا ، روک لینا یہ بھی محل نظر ہوگا ، حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے قنوت وتر یا نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کی اجازت دی تھی اور ہمارے بعض مشائخ بھی اس کی اجازت دیتے ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر صاحب حفظہ اللہ

اصل تو یہی ہے کہ ہر نمازی نماز جنازہ میں خود دعائیں پڑھے۔ لیکن جہری جنازہ پڑھنے کی صورت میں نمازیوں کے لیے الگ سے دعائیں پڑھنا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ اس لیے دعائے قنوت پر قیاس کرتے ہوئے امام کی دعاء کے وقفے میں آمین کہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ