سوال (2811)
اگر کوئی بندہ نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے آخری تشہد میں ملتا ہے۔ دونوں رکعت نکل گئی ہیں، لیکن بہت سے مسلمان پھر بھی دو رکعت ہی پڑھتے ہیں، جبکہ اس نمازی کو اب ظہر کی چار رکعت پڑھنی ہے، تو اس بارے حدیث کے دلائل درکار ہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین، اس بارے میں صحیح احادیث کی روشنی میں دلیل کے ساتھ وضاحت فرما کر رہنمائی فرما دیں، کیا نمازِ جمعہ کی آخری تشہد میں ملنے سے دو رکعت کفایت کریں گی یا پھر نمازِ ظہر کی چار رکعت پڑھنی چاہیے؟
جواب
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی“۔
[سنن نسائی: حدیث نمبر 1426]
اس حدیث سے اہل علم نے استدلال کیا ہے ہے کہ جو ایک رکعت پالے وہ دو رکعت ادا کرے اور جو تشھد میں شامل ہو وہ چار رکعت ادا کرے۔
اسی طرح ابن ماجہ حدیث نمبر: 1121 ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی، تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے“۔
بعض اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ ہیں ان کا موقف ہے کہ تشھد میں ملنے والا بھی دو رکعت ہی پڑھے گا۔
وہ ما فاتکم فاتموا سے استدلال کرتے ہیں، لیکن یہ استدلال صریح نہ ہونے کی بنا پہ درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
شیخ نے پوری بات تفصیلاً کردی ہے، جمعے کے دن جمعے کی نماز میں آخری تشھد میں آنے والا ظہر ادا کرے گا، بعض علماء اس طرف گئے ہیں، ایک استدلال شیخ نے ذکر کیا ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ جو امام کی نیت تھی، آپ اس نیت کے تابع ہو جائیں گے، لیکن دلائل کی روشنی میں یہ بات صحیح ہے کہ اس کو جمعے کی دو رکعتوں میں سے کوئی بھی رکعت نہیں ملی ہے، اب وہ ظہر ہی ادا کرے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ایک رکعت سے کم پانے والا جمعہ کو پائے گا یا نہیں؟
جی ایک رکعت سے کم پانے والا ظہر کی نماز ادا کرے گا اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔
اس مسئلہ پر کوئی مرفوع حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پنہچتی ہے اور جو حدیث أبو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ علی الراجح جمعہ کی تخصیص کے بغیر ہے اور جو سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارقطنی کی روایت ہے، وہ علی الراجح ضعیف ہے اور اصلا سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ہی مروی ہے ناں کہ ابن عمر رضی الله عنہ سے جو کہ بقیہ راوی کا وھم ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺼﻔﺎ ﻭﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻗﺎﻻ: ﻧﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ اﻷﻳﻠﻲ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ ﻓﻠﻴﻀﻒ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺃﺧﺮﻯ ﻭﻗﺪ ﺗﻤﺖ ﺻﻼﺗﻪ [سنن دارقطنی : 1606]
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:
ﻭﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﺑﻘﻴﺔ، ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله عليه وسلم ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ، ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻙ؟
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ : ﻫﺬا ﺧﻄﺄ؛ اﻟﻤﺘﻦ ﻭاﻹﺳﻨﺎﺩ؛ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ: اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ صلى الله عليه وسلم: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ ﺭﻛﻌﺔ، ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭكها
ﻭﺃﻣﺎ ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ … ، ﻓﻠﻴﺲ ﻫﺬا ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻓﻮﻫﻢ ﻓﻲ ﻛﻠﻴﻬﻤﺎ
[علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي : 491 ، 2/ 431 ، 432]
علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي کے اس محققہ نسخہ کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں:
ﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ (9/216 ﺭﻗﻢ1730) : ﻭاﺧﺘﻠﻒ ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﻓﺮﻭاﻩ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺭﺟﺎء ﻭاﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﻭاﻟﻠﻴﺚ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﺼﻮاﺏ. ﻭﺧﺎﻟﻔﻬﻢ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﻓﻘﺎﻝ: ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ: “ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺠﻤﻌﺔ” ﻓﻘﺎﻝ ﺫﻟﻚ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ اﻟﺨﻴﺎﻁ ﻋﻨﻪ، ﻭﻭﻫﻢ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ، ﻭاﻟﺼﻮاﺏ: “ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ”. ﻭﺭﻭاﻩ ﺑﻘﻴﺔ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻓﻮﻫﻢ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻭﻣﺘﻨﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺔ ، ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﻗﻮﻝ اﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻭﻣﻦ ﺗﺎﺑﻌﻪ. ـ. ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ “اﻟﻤﻴﺰاﻥ” (1/334) : ﺭﻭاﻩ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺴﻴﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﻣﺎ ﻓﻴﻪ: ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔـ
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻋﺪﻱ ﻓﻲ اﻟﻤﻮﺿﻊ اﻟﺴﺎﺑﻖ: ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺧﺎﻟﻒ ﺑﻘﻴﺔ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻭﻣﺘﻨﻪ. ﻓﺄﻣﺎ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﻓﻘﺎﻝ: ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ. ﻭﻓﻲ اﻟﻤﺘﻦ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻟﺜﻘﺎﺕ ﺭﻭﻭﻩ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮﻭا اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺫﻛﺮﻩ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ “ﺳﻴﺮ ﺃﻋﻼﻡ اﻟﻨﺒﻼء” (8/526) ﺭﻭاﻳﺔ ﺑﻘﻴﺔ ﻫﺬﻩ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻓﻬﺬا منكر، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻳﺮﻭﻱ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﺑﻌﺾ ﻫﺬا ﺑﺪﻭﻥ اﻟﺠﻤﻌﺔ … . ﻭﻗﺪ اﺧﺘﻠﻒ ﻋﻠﻰ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ اﺧﺘﻼﻓﺎﺕ ﻛﺜﻴﺮﺓ، ﺫﻛﺮﻫﺎ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ “ﻋﻠﻠﻪ” ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺄﻟﺔ ﺭﻗﻢ (1730)
حافظ ابن حجر اس روایت کے بعد کہتے ہیں:
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻫﺬا ﺧﻄﺄ ﻓﻲ اﻟﻤﺘﻦ ﻭاﻹﺳﻨﺎﺩ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ ﺭﻛﻌﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻛﻬﺎ ﻭﺃﻣﺎ ﻗﻮﻟﻪ “ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ” ﻓﻮﻫﻢ ﻗﻠﺖ ﺇﻥ ﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﻭﻫﻢ ﺑﻘﻴﺔ ﻓﻔﻴﻪ ﺗﺪﻟﻴﺴﻪ اﻟﺘﺴﻮﻳﺔ ﻷﻧﻪ ﻋﻨﻌﻦ ﻟﺸﻴﺨﻪ…..
[التلخيص الحبير : 2/ 107]
حافظ ابن ملقن نے کہا:
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ﻓﻲ ﻋﻠﻠﻪ : ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻘﺎﻝ: (ﻫﺬا) ﺧﻄﺄ اﻟﻤﺘﻦ ﻭاﻹﺳﻨﺎﺩ، ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ ﺭﻛﻌﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻛﻬﺎ ﻭﺃﻣﺎ ﻗﻮﻟﻪ: ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻠﻴﺲ ﻫﺬا ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻮﻫﻢ ﻓﻲ ﻛﻠﻴﻬﻤﺎ
ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺸﻴﺦ ﺗﻘﻲ اﻟﺪﻳﻦ ﻓﻲ (اﻹﻣﺎﻡ) : ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻌﺪﻭﺩ ﻓﻲ ﺃﻓﺮاﺩ ﺑﻘﻴﺔ ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻭﺑﻘﻴﺔ (ﻣﻮﺛﻖ) ﻭﻗﺪ ﺯاﻟﺖ ﺗﻬﻤﺔ (ﺗﺪﻟﻴﺴﻪ) ﺑﺘﺼﺮﻳﺤﻪ (ﺑﺎﻟﺘﺤﺪﻳﺚ) ، ﻭﻫﺬا (ﻣﺆﺫﻥ) ﻣﻦ اﻟﺸﻴﺦ ﺗﻘﻲ (اﻟﺪﻳﻦ) ﺑﺘﺼﺤﻴﺢ ﻫﺬا اﻟﻄﺮﻳﻖ ﻟﻜﻦ (ﺑﻘﻴﺔ ﺭﻣﻲ) ﺑﺘﺪﻟﻴﺲ (اﻟﺘﺴﻮﻳﺔ) ﻓﻼ (ﻳﻨﻔﻌﻪ) ﺗﺼﺮﻳﺤﻪ ﺑﺎﻟﺘﺤﺪﻳﺚ
[البدر المنیر لابن ملقن: 4/ 508 ،509]
اس حدیث کو امام ابو حاتم الرازی نے منکر بھی کہا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻭﺫﻛﺮ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻪ ﻋﻦ ﺣﻴﻮﺓ ، ﻋﻦ ﺑﻘﻴﺔ ، ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ صلى الله عليه وسلم ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻊ اﻹﻣﺎﻡ ﺭﻛﻌﺔ، ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺠﻤﻌﺔ.
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ: ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ
[علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي :2/ 463 ،464 ، 519]
ہم نے شروع میں کہا تھا کہ جو ہم نے دراسہ کیا ہے اس کے مطابق یہ روایت علی الراجح سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے اور ابن عمر رضی الله عنہ سے منسوب کرنا خطاء و وھم ہے، یہی بات سینکڑوں سال قبل امام ابو حاتم الرازی نے کہی ہوئی ہے۔
مزید ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:
ﻭﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﺑﻘﻴﺔ ، ﻋﻦ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ صلى الله عليه ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ، ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺼﻼﺓ؟ ﻓﺴﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ: ﻫﺬا ﺧﻄﺄ؛ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ: اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ صلى الله عليه وسلم
[علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي :2/ 580 ، 607]
امام ابن عدی اس روایت کے بعد کہتے ہیں:
ﻭﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺧﺎﻟﻒ ﺑﻘﻴﺔ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻭﻣﺘﻨﻪ ﻓﺄﻣﺎ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻦ ﺳﺎﻟﻢ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﻓﻲ اﻟﻤﺘﻦ ﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭاﻟﺜﻘﺎﺕ ﺭﻭﻭﻩ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮﻭا اﻟﺠﻤﻌﺔ
[الكامل لابن عدي : 2/ 267 ، 268]
حافظ ذہبی نے اس روایت کو بقیہ کی مناکیر سے قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اصل روایت میں الجمعة کا ذکر نہیں ہے۔
[میزان الاعتدال : 1/ 334]
اور دیکھیے أطراف الغرائب والأفراد :(128) 1/ 120 ،اور تفصیل سے دیکھیے العلل للدارقطنى :9/ 213 تا 224 (1730)
اور سب سے زیادہ تفصیل دیکھیے أثر اختلاف المتون والأسانيد في اختلاف الفقهاء:1/ 93 تا106 لدكتور ماھر یاسین الفحل
حدیث أبی ھریرہ رضی الله عنہ جس میں جمعہ کی تخصیص نہیں ہے
ملاحظہ فرمائیں:
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺷﻬﺎﺏ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ الرحمن، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺼﻼﺓ
[موطا امام مالك : (15)1/ 10،مسند الشافعی:(150) ،صحيح البخاري: (580) ،صحیح مسلم:(607) ،مسند أحمد : (7665) ،القراءة خلف الإمام للبخاري : (129 ،138) وغيره]
اس حدیث کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں:
ﻭاﻟﻌﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا ﻋﻨﺪ ﺃﻛﺜﺮ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ.
ﻗﺎﻟﻮا: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺻﻠﻰ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺃﺧﺮﻯ، ﻭﻣﻦ ﺃﺩﺭكهم ﺟﻠﻮﺳﺎ ﺻﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌﺎ.
ﻭﺑﻪ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭاﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻭاﻟﺸﺎﻓﻌﻲ، ﻭﺃﺣﻤﺪ، ﻭﺇﺳﺤﺎﻕ۔
[سنن ترمذی : 524]
اس حدیث کے راوی ثقہ تابعی امام زھری نے اس روایت کے تحت کہا:
ﻭاﻟﺠﻤﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ
اور جمعہ نماز میں سے ہے۔
[مسند السراج: 930 ،السنن الکبری للبیھقی :5734 صحیح]
اور امام زھری نے کہا: ﻭﻫﻲ اﻟﺴﻨﺔ اور امام مالک نے کہا:
ﻭﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﺃﺩﺭكت ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ ﺑﺒﻠﺪﻧﺎ جزء القراءة خلف الإمام للبخاري :(130) صحیح
امام بیھقی نے کہا:
ﻫﺬا ﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻭﻫﻮ ﺭﻭاﻳﺔ اﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻭﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﻌﻤﺮ ﺩﻻﻟﺔ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻟﻔﻆ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻣﻄﻠﻖ ﻭﺇﻧﻬﺎ ﺑﻌﻤﻮﻣﻬﺎ ﺗﺘﻨﺎﻭﻝ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻛﻤﺎ ﺗﺘﻨﺎﻭﻝ ﻏﻴﺮﻫﺎ ﻣﻦ اﻟﺼﻠﻮاﺕ. ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻯ ﺃﺳﺎﻣﺔ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻧﺼﺎ
تنبیہ:
لیکن میں طیبی کہتا ہوں اسامہ دن زید اللیثی کی روایت جس میں ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺔ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺃﺧﺮﻯ( السنن الکبری للبیھقی :(5735) کے الفاظ ہیں وہ غیر محفوظ ہے کیونکہ امام زھری کے کبار حفاظ تلامذہ (جن میں امام مالک بن انس ،امام سفیان بن عینیہ ،،امام معمر،یونس،عبيد الله بن عمر ،امام أوزاعی وغیرہ شامل ہیں)، وہ اسے مطلقا من الصلاۃ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اور یوں اسامہ اللیثی نے ان اپنے سے کبار ثقات حفاظ کی مخالفت کی ہے جو بالاتفاق من الصلاة کے الفاظ بیان کرتے ہیں ۔ ایسے ہی صالح بن أبی الأخضر عن الزھری طریق ( السنن الکبری للبیھقی :(5736)بھی ضعیف غیر محفوظ اور شاذ ہے کہ یہ بھی ان ائمہ حفاظ وتقات کی متفقہ روایت کے خلاف بیان کر رہا ہے جو واضح خطاء ہے۔
اب کچھ آثار سلف صالحین پیش خدمت ہیں:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻤﺰﻛﻲ، ﺃﻧﺒﺄ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮﻫﺎﺏ، ﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ، ﺃﻧﺒﺄ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻛﻬﺎ، ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻳﻘﻀﻲ ﻣﺎ ﻓﺎﺗﻪ
[السنن الكبرى للبيهقى : 5737 صحيح]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ (هواﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ)، ﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻦ( هو ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ اﻟﻌﺎﻣﺮﻱ)، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﺭﻛﻌﺔ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻛﻬﺎ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻳﻘﻀﻲ ﻣﺎ ﻓﺎﺗﻪ
[الأمالي والقراءة :ص 29 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺮﻛﻌﺔ ﻓﻘﺪ ﺃﺩﺭﻙ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺪﺭﻙ اﻟﺮﻛﻌﺔ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺃﺭﺑﻌﺎ
[المعجم الكبير للطبراني :(9546) 9/ 309 ،واللفظ له ،مصنف ابن أبي شيبة :(5440) الأوسط لابن المنذر :(1852) صحیح]
امام سفیان ثوری ابو اسحاق السبیعی سے روایت میں أثبت وأحفظ ہیں اور ان کی روایت کے بارے أعلم وأجل بھی ہیں
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻧﺎ ﻋﻠﻲ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻫﺒﻴﺮﺓ ﺑﻦ ﻳﺮﻳﻢ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﻓﺎﺗﺘﻪ ﻓﻠﻴﺼﻞ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻳﻌﻨﻲ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ، ﺃﻧﺎ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻷﺣﻮﺹ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻣﺜﻠﻪ
[الجعديات/ مسند علي بن الجعد :(1957 ،1958) صحيح]
إسرائيل أبو إسحاق سے روایت میں أحفظ وأثبت ہیں اور صحبت کثیرہ وخاص بھی رکھتے ہیں
حدثنا عبدة عن سعيد عن قتادة عن أنس بن مالك قال: إذا أدركهم يوم الجمعة جلوسا صلى أربعا
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ نے فرمایا:
جب تم انہیں جمعہ کے دن حالت جلسہ میں پاؤ تو چار رکعات پڑھو۔
[مصنف ابن أبي شيبة : 5463 صحیح]
سعید بن أبی عروبہ قتادہ سے روایت میں أثبت و أحفظ ہیں۔
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا علي بن مسهر عن سعيد عن قتادة عن سعيد بن المسيب وأنس والحسن قالوا: إذا أدرك من الجمعة ركعة أضاف إليها أخرى فإذا أدركهم جلوسا صلى أربعا.
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ، امام سعید بن مسیب رحمه الله فرماتے تھے جب تم جمعہ کی ایک رکعت پا لو تو اس کے ساتھ دوسری کو ملا کر اپنی نماز مکمل کر لو اور جب تم امام اور مقتدیوں کو تشہد وجلوس میں پاؤ تو تب چار رکعات پڑھو۔
[مصنف ابن أبي شيبة :(5459) صحیح]
حدثنا هشيم قال أخبرنا سعيد عن قتادة عن أنس وسعيد بن المسيب أنهما قالا: من أدرك من الجمعة ركعة فليصل إليها أخرى
[مصنف ابن أبي شيبة:(5449) صحيح]
سعید بن أبی عروبہ قتادہ سے روایت میں أثبت وأحفظ ہیں۔
حدثنا وكيع عن سفيان عن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة والأسود قالا: إذا أدركهم جلوسا صلى أربعا
علقمہ اور اسود رحمهما الله تعالى کہتے ہیں: جب تم انہیں حالت جلسہ میں پاؤ تو چار رکعات پڑھو
[مصنف ابن أبي شيبة :(5460) صحیح]
حدثنا ابن علية عن أيوب عن نافع قال: إذا أدركت ركعة فأضف إليها أخرى۔
امام نافع رحمه الله تعالى نے کہا:
جب تم ایک رکعت پا لو تو اس کے ساتھ دوسری ملا لو۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 5456 صحيح]
حدثنا ابن مهدي عن حماد عن هشام عن أبيه قال: إذا أدرك ركعة من الجمعة صلى إليها أخرى
[مصنف ابن أبي شيبة: 5453 صحيح]
حدثنا عبد الأعلى عن معمر عن الزهري قال: من أدرك ركعة فليضف إليها ركعة أخرى۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 5452 صحيح]
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا يحيى بن سعيد عن حسين بن ذكوان عن الحسن ومحمد قالا: إذا أدرك ركعة من الجمعة أضاف إليها أخرى۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 5450 صحيح]
حدثنا هشيم قال: حدثنا إسماعيل بن سالم قال: سمعت الشعبي يقول: من أدرك الخطبة فهي الجمعة، ومن أدرك ركعتين فهي الجمعة، ومن أدرك ركعة فقد أدرك الجمعة فليصل ركعة أخرى، ومن لم يدرك الركوع فليصل أربعا
[مصنف ابن أبي شيبة: 5444 صحيح]
امام شافعی کا موقف بھی یہی ہے
دیکھیے الأم للشافعي :1/ 236، مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه:2/ 859 ،860 میں ہے
ﻗﻠﺖ: ﺇﺫا ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺔ؟
ﻗﺎﻝ: ﻳﻀﻴﻒ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺃﺧﺮﻯ، ﻭﺇﺫا ﺃﺩﺭﻛﻬﻢ ﺟﻠﻮﺳﺎ ﻳﺼﻠﻲ ﺃﺭﺑﻌﺎ
مزید کتب شروحات وکتب فقہ وغیرہ میں دیکھیے۔
راجح یہی ہے کہ جس نے جمعہ کی رکعت کو نہیں پایا وہ ظہر ہی پڑھے گا۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ