سوال (4037)

ایک سوال ہے جی نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح میں فرق ہے کے نہیں اور نمازِ تہجد نمازِ تراویح کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؟

جواب

کیا تراویح اور تہجد ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں، یا واقعتا یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپکے اسوۃ سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ تراویح، قیام رمضان، قیام اللیل اور تھجد ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ لیکن بعض لوگ (ھداھم اللہ ) اس ابت پر مصر ہیں کہ نہیں تراویح اور تھجد الگ الگ نمازیں ہیں۔ وہ در اصل یہ بات کر کہ ان احادیث کو رد کرنا چاہتے ہیں جن میں صاف صاف موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں گیارہ رکعات قیام فرمایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے یہ روایات یار لوگوں کو نہ بھائیں لہذا انھوں نے ان صحیح ترین روایات کو رد گرنے کیلۓ یہ شبہ چھوڑ دیا کہ قیام رمضان الگ نماز ہے اور نمازِ تھجد الگ نماز ہے۔
حالانکہ انکی یہ تاویل بالکل باطل اور سراسر تحکم ہے اور صحیح بات یہی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے کہ تروایح ،قیام رمضان،قیام اللیل اور تھجد ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
ہم اپنے اس دعوہ پر دس دلائل آپکے سامنے پیش کرتے ہیں۔
دلیل نمبر (1)
آئمہ محدثین نے سیدۃ عائشہ کی روایت (جس میں آپ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا رسولِ خدا رمضان اور غیرِ رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری :2013) پر قیامِ رمضان اور تراویح کے ابواب قائم کیے ہیں، مثلا:
(1) صحیح بخاری، کتاب الصوم، کتاب صلوۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان
(2) مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی: ص 141، باب قیام شھر رمضان وما فیه من الفضل۔
_ عبدالحئ لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے اسکے حاشیہ میں لکھا ہے: قولہ، قیام شھر رمضان ویسمی التراویح
(یعنی قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے)
(3) السنن الکبری للبیھقی (495.496/2) باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان۔
دیکھیے ان آئمہ محدثین نے سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت سے قیام اللیل اور تراویح کو ایک ہی نماز مراد لیا ہے فرق نہیں کیا۔
دلیل نمبر (2)
متقدمین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ نے یہ نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نمازِ تراویح کیساتھ نہیں ہے۔
دلیل نمبر (3)
سیدۃ عائشہ کی حدیث کو کئی علماء نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے۔ مثلا:
(1) علامہ زیلعی حنفی (نصب الرایہ 153/2)
(2) حافظ ابن حجر ( الدرایہ 203/1 )
(3) علامہ ابن ہمام حنفی (فتح القدیر 467/1)
(4) علامہ ملا علی قاری (عمدۃ القاری 128/11)
(5) علامہ سیوطی (الحاوی للفتاوی 348/1 )
دلیل نمبر (4)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح اور تھجد الگ الگ پڑھنا بالکل ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر (5)
سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت میں سائل نے صرف قیامِ رمضان کے بارے پوچھا تھا لیکن سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بغیر فرق کیے، سوال سے زائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیامِ رمضان و غیر رمضان کی رکعات گیارہ بتائیں ہیں۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تھجد اور قیام رمضان ایک ہی چیز ہے الگ الگ نہیں۔
دلیل نمبر (6)
جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ تھجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں انکے اصول پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح (3+20) پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تھجد (3+8 ) پڑھیں (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں دو وتر پڑھے حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں دو وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے (دیکھیے سنن ابی داؤد 1439 ، جامع الترمذی ،سنن نسائی ، صحیح ابن خزیمہ صحیح ابن حبان وسندہ صحیح)
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا ۔ لہذا نتیجہ یہی نکلا کہ تھجد اور تراویح میں فرق کرنا سراسر تحکم اور نا انصافی ہے۔
دلیل نمبر (7)
کئی حنفی علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ تھجد اور تراویح میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیساکہ دلیل نمبر (1) کے ذیل محمد بن الحسن الشیبانی اور عبدالحی لکھنوی رحمھا اللہ کی عبارات گزری ہیں اسی طرح انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ بھی نہایت ہی برملا انداز میں اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں۔ دیکھئے (فیض الباری 420/2 ، العرف الشذی 166/1 )
دلیل نمبر (8)
امیر المومنین سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھجد اور قیام رمضان کو ایک ہی نماز سمجھتے تھے۔
تفصیل کے کیے دیکھیے ( فیض الباری 420/2)
دلیل نمبر (9)
کئی آئمہ محدثین نے اس شخص کو تھجد پڑھنے سے منع کیا ہے جو تراویح پڑھ چکا ہو۔ تفصیل کیلۓ دیکھیے ( قیام اللیل للمروزی )
دلیل نمبر (10)
کئی علماء بشمول علماءِ احناف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گیارہ رکعات تراویح ہی ثابت ہیں۔ تفصیل کیلۓ دیکھیے (العرف الشذی 166/1 )

تلك عشرة كاملة، وفيه كفاية لمن له دراية.

فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ