سوال (1038)

نماز وتر ایک یا تین ان میں سے درست عمل کون سا ہے؟ کیا نماز وتر باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنی ثابت ہے؟

جواب

نماز وتر ایک، تین، پانچ، سات، نو رکعات پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بعض دفعہ) نو رکعات وتر پڑھتے، جس میں آٹھویں رکعت میں پہلا تشہد کرتے، اور پھر نویں رکعت میں دوسرا تشہد پڑھ کر سلام پھیرتے۔ اور دو رکعت اس سے ہٹ کر پڑھتے، یوں گیارہ رکعات مکمل ہوجاتیں۔ [صحيح مسلم:746]
نو رکعت وتر میں دو تشہد ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں گزرا، جبكہ سات اور پانچ وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف ایک تشہد آخری رکعت میں ہی کیا جائے۔ [سنن ابي داود:1356]
اگر آپ مسنون رکعاتِ قیام کی پابندی کرنا چاہتے ہیں تو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وتر کی رکعات جتنی زیادہ ہوں، جفت نوافل میں اتنی رکعات کم پڑھ لی جائیں۔
وتر قیام اللیل کا ہی ایک حصہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل چند دن جماعت کے ساتھ کروایا تھا، بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وتر بھی اس میں شامل ہے۔ البتہ بعض اہل علم کو سنا، وہ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ آپ نے صرف جفت رکعات کی امامت کروائی تھی، اس میں وتر شامل نہیں تھے۔ اس کا علم نہیں ہے کہ یہ بات کس حد تک درست ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

سات وتر کے دو طریقے ہیں۔ ایک تشھد کے ساتھ اور دو تشھد کا بھی ذکر آیا ہے ۔ یعنی ایک تشھد چھٹی رکعت میں اور دوسرا ساتویں رکعت میں ، اور جن احادیث میں قیام اللیل کرانے کا ذکر ہے ان میں ہے “ثم اوتر” کہ پھر آپ نے وتر پڑھائے۔ وتر اکیلے پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔

“فلما کبر و ضعف اوتر بسبع رکعات لا یقعد الا فی السادسة ثم ينهض و لا يسلم فيصلى السابعة ثم يسلم تسليمة”
[السنن للنسائی : 1720. التعلیقات السلفیہ ج : 01 ص : 202]

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

دو دو کر کے رات کی نماز ادا کریں ، اس کے بات ایک رکعت نماز کے ذریعے اسے وتر بنائیں۔
عام حالات میں جبکہ رات کی نماز پڑھنے کی عادت نہیں ، دو رکعت سلام کے ساتھ پڑھیں جس میں سورہ الاعلیٰ اور کافرون کی تلاوت کریں ، پھر ایک رکعت سورہ اخلاص کے ساتھ پڑھیں ، قنوت کرنا وتر میں کسی صحیح حدیث سے نہ نبی علیہ السلام سے ثابت ہے نہ صحابہ سے ، سوائے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ، اس لئے کھبی کبھار آدمی قنوت کر لے ، یہ افضل طریقہ ہے وتر کی ادائیگی کا ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ