سوال
نماز کی حالت میں چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا کیسا ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
نماز کی حالت میں اگر چھینک آجائے تو الحمد للہ کہا سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے (اونچی آواز میں) کہہ دیا:
“الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى”.
’’تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، بہت زیادہ تعریف، پاکیزہ اور بابرکت جس قدر ہمارا رب پسند کرے اور جس پر راضی اور خوش ہو‘‘۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا: ’’ کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا؟‘‘ کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’کس آدمی نے نماز میں کلام کیا تھا؟‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو نے کیسے کہا تھا؟ ‘‘میں نے کہا: میں نے کہا تھا:
“الحَمدُلِلهِ حَمداً کثیراً طَیباً مُبارکاً فيهِ مُبارکاً عليهٍ کَما یُحِبُّ ربُنا ویَرضی”.
تو اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا”. [سنن النسائی: 932]
’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے زائد فرشتے اس کلمے کی طرف لپکے تھے کہ کون انہیں لے کر اوپر چڑھتا ہے؟‘‘۔
اس حدیث سے فقہاء و محدثین کرام نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نماز میں چھینک آنے پر “الحمد للہ” کہنا مشروع اور جائز ہے۔ البتہ اختلاف اس بات میں ہے کہ یہ الفاظ اونچی آواز سے کہے جائیں یا آہستہ آواز میں۔
اس حوالے سے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ عام حالت میں ’الحمدللہ‘ اونچی آواز سے ہی کہنا چاہیے، لیکن نماز کے اندر نمازی “الحمد للہ” اتنی آواز میں ہی کہے جو صرف خود کو سنائی دے، تاکہ دوسرے نمازیوں کی نماز میں خلل یا تشویش لاحق نہ ہو۔
البتہ کسی دوسرے آدمی کے لیے چھینک کا جواب دینا درست نہیں، کیونکہ نماز میں بات چیت جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ نماز میں کسی کو چھینک آئی تو ایک صحابی نے نماز ہی کی حالت میں اسکے جواب میں “یَرحمُكَ الله” کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا اور ارشاد فرمایا:
“إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ”. [صحیح مسلم: 1199]
’’یہ نماز ہے، اس میں لوگوں کی کسی قسم کی گفتگو درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قراءتِ قرآن ہے‘‘۔
لہٰذا راجح مسئلہ یہ ہے کہ چھینک آنے پر نمازی خود “الحمد للہ” کہ سکتا ہے اسکے لیے بھی بہتر یہ ہے کہ آہستہ آواز میں کہے، لیکن کسی دوسرے شخص کے لیے نماز کی حالت میں جواب دینا (یرحمک اللہ کہنا) درست نہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ