سوال (2444)
نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے کی کیا دلیل ہے کہ کیا ایک طرف سلام پھیرنا ہی کفایت کر جائے گا؟ اس طرح اگر کوئی حدیث اس سے استدلال کیا جاتا ہے وہ بتا دیں۔
جواب
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے، اس کی تحریم اللہ اکبر اور اور تحلیل السلام علیکم کہنا ہے،
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم] [ رواه ابو داؤد: ٦١٨]
الله اکبر کہنے سے ہی نماز شروع ہوتی ہے اور اس دوران نماز میں باتیں کرنا یا نماز کے منافی امور کرنا حرام ہو جاتا ہے، اس لیے اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں اور اس کا اختتام سلام پر ہوتا ہے، یعنی نماز کے اندر جو پابندی تھی، وہ ختم ہو جاتی ہے، اس لیے اس کو تحلیل یعنی حلال ہونا کہتے ہیں کہتے ہیں، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں تکبیر تحریمہ بھی رکن ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور سلام پھیرنا بھی رکن ہے اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہو گئی۔
سلام پھیرنا کا طریقہ:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
“ان رسول الله صلی الله عليه وسلم کان يسلم عن يمينه السلام عليكم ورحمة الله حتي يري بياض خده الأيمن و عن يساره” [ سنن النسائي : ١٣٢٤]
اسی طرح کسی نے الشيخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ میں نے ایک آدمی پیچھے نماز پڑھی تو اس نے صرف دائیں طرف سلام پھیرا کیا ایک سلام پر اکتفاء کرنا جائز ہے، کیا یہ سنت سے ثابت ہے تو الشيخ ابن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ جمہور اہل علم ایک سلام کو کافی سمجھتے ہیں، اس لیے کہ بعض احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں اور بہت سے اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ دونوں طرف سلام پھیرنا ضروری ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی ثبوت ملتا ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان
صلوا كما رايتموني أصلي [ رواه البخاري ]
یہی قول درست ہے ایک طرف سلام پھیرنے کو کافی کہنا ضعیف ہے، کیونکہ اس بارے جو روایات ہیں وہ سب ضعیف ہیں اور غیر صریح ہیں اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ شاذ ہوگی، کیونکہ یہ زیادہ صحیح زیادہ ثابت اور زیادہ صریح کے مخالف ہو گی [ مجموع فتاوی و مقالات الشيخ ابن باز 11/ 166 ]
اب الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا قول نقل کرتا ہوں، یہی سوال شیخ رحمہ اللہ سے بھی تو آپ نے فرمایا اس کی بابت علماء میں اختلاف ہے بعض نے کہا کفایت کرے گا اور بعض نے کہا کہ کفایت نہیں کرے گا بعض نے کہا کہ نفل میں کفایت کرے گا فرض میں نہیں فرض دونوں طرف سلام پھیرنا ضروری ہے یہ تین اقوال بن جاتے ہیں احتیاط اسی میں ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرا جائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں احتیاط کرنے کا حکم دیا ہے جس میں دلیل واضح نا ہو [ الشرح الممتع 3 / 211 -212 ]
ہمارا بھی رجحان اسی طرف ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرا جائے ایک طرف سلام کفایت نہیں کرے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم
فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ