سوال (4723)
نماز میں قرات سے قبل بسملہ جہری ہے یا سری اس بارے کوئی جامع تحریر درکار ہے۔
جواب
دلائل کی رو سے بسم اللہ سراً پڑھنا اولی و افضل ہے، اس کی بنیاد صحیح مسلم کی روایت ہے، جہراً بھی ثابت ہے، جیسا کہ سنن النسائی وغیرہ میں روایتیں موجود ہیں، یہ جواز ہے، سراً پڑھنا مسنون ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
نماز میں قراءت سے پہلے “بسم الله الرحمن الرحيم” کو جہری (زور سے پڑھنا) چاہیے یا سری (آہستہ پڑھنا) یہ فقہی مسئلہ اہل علم کے درمیان اختلافی ہے، اور اس بارے میں ائمہ اربعہ سمیت اہل حدیث مکتب فکر کے ہاں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے اصولی بات یہ سمجھ لی جائے کہ “بسم الله الرحمن الرحيم” سورہ الفاتحہ کا حصہ ہے یا نہیں؟
اس پر اختلاف ہے۔ اہل حدیث و جمہور اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ بسم الله الرحمن الرحيم سورۃ الفاتحہ کی آیت ہے، اور ہر سورت سے پہلے پڑھی جاتی ہے، سوائے سورۃ التوبہ کے۔
تمام مکاتبِ فکر کا اتفاق ہے کہ سورہ الفاتحہ سے پہلے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھنا مشروع (مشروع و مسنون) ہے، خواہ جہری ہو یا سری۔ لیکن جہری و سری میں اختلاف یے
ایک قول کے مطابق تو بسم الله الرحمن الرحيم کو جہری (زور سے) پڑھا جائے، خاص طور پر جہری نمازوں (فجر، مغرب، عشاء) میں۔ یہ قول شوافع کا ہے
یہ أنس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں:
صليت خلف النبي ﷺ وأبي بكر وعمر وعثمان، فكانوا يستفتحون بـ﴿الحمد لله رب العالمين﴾»(متفق علیہ)
اس روایت سے بعض نے سری بسم اللہ پر استدلال کیا ہے، مگر اس روایت میں “ذکر نہیں کرنا” کو “نہ پڑھنا” قرار دینا محل نظر ہے۔
البتہ نعيم بن عبد الله المجمر کی روایت میں ہے کہ
سمعت أبا هريرة يقرأ: ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾، ثم قرأ أم القرآن»(ابن خزیمہ)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے کی روایت جہری قراءت کا ثبوت دیتی ہے۔
امام ابن القيم اور شیخ البانی رحمہ اللہ (صفة الصلاة) نے بھی جہری بسم اللہ کو راجح قرار دیا ہے۔
اس کے بر خلاف امام ابو حنیفہ و مالک کا موقف ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو سری (آہستہ) پڑھنا افضل یا واجب ہے۔ اور ان کا استدلال درج ذیل حدیث سے ہے
مذکورہ حدیث انس سے استدلال: «كانوا يستفتحون بـ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾»
ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ بسم اللہ کو آہستہ پڑھا جاتا یا چھوڑا جاتا تھا۔
امام احمد بن حنبل: کبھی جہری، کبھی سری دونوں جائز ہیں، نبی ﷺ سے دونوں طرح کے عمل ثابت ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جہری بسم اللہ پڑھنا ثابت ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جہری بسملہ کے ساتھ نماز پڑھانا منقول ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سری بسملہ منقول ہے۔
صحابہ کرام کا عمل مختلف ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریقے جائز ہیں۔
راجح اور قوی قول یہی ہے کہ:
جہری نمازوں میں بسم الله الرحمن الرحيم کو بلند آواز سے پڑھنا سنت ہے۔سری نمازوں میں بسم اللہ کو آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ