سوال (2036)

ایک بچی نے مجھ سے کچھ دیر پہلے سوال کیا ہے کہ رکوع تو ایک ہوتا ہے، سجدے کیوں دو ہوتے ہیں، میں جواب میں صرف یہی کہہ سکا ہوں کہ “سوچن والی گل اے” اور تب سے سوچ رہا ہوں لیکن کوئی جواب سمجھ میں نہیں آیا ہے؟ علمائے کرام کے پاس اس کا جواب ہو تو عطا فرمائیں۔

جواب

عبادات توقیفی ہوتی ہیں، اس لیے کیوں ہے؟ اور کیوں نہیں؟
لہذا عبادات کے بارے اس طرح کے سوالات نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی نماز پڑھ کے دکھائی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“صلوا کما رایتمونی اصلی”

اب ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی حکمت بیان نہیں کی ہے، اس لیے ہمیں اس کی حکمت جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے، البتہ ہم اپنی طرف سے اگر سوچنا چاہیں تو کئی حکمتیں نکل سکتی ہیں
جیسا کہ سجدے میں انسان اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو ہمیں ہر رکعت میں دو بار یہ موقع دیا گیا ہے ،اسی طرح کچھ صوفیوں کا خیال ہے کہ جب ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور فرشتوں نے سجدہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ شیطان پھر بھی اپنی ضد پہ قائم ہے تو فرشتوں نے دوبارہ سجدہ کیا تو اسی لئے نماز میں بھی دوبارہ سجدہ کیا جاتا ہے، لیکن یہ قول بلا دلیل ہے، کہنے والوں کا اپنا خیال ہے، ایک یہ بھی حکمت ہو سکتی ہے کہ پہلے سجدے سے انسان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ تم اس مٹی سے پیدا ہوئے ہو اور دوسرا سجدہ یہ یاد دلانے کے لیے ہے کہ دوبارہ اسی میں جانا ہے ، اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” احکام اسلام عقل کی نظر میں ” یہ بات بیان کی ہے، اب آپ بچی کو جیسے بھی سمجھا کر اس کی تشفی کر سکتے ہوں کر دیں۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

کان دو، آنکھیں دو، ہاتھ دو، پاؤں دو، دانت دو سے زائد ایسا کیوں ہے، ناک ایک ایسا کیوں ہے، بعض لوگ گونگے، بہرے اندھے ہوتے ہیں ایسا کیوں، بیویاں ایک سے زیادہ تو شوہر ایک سے زائد کیوں نہیں ہو سکتے، دل ایک تو گردے دو کیوں ہیں۔ اب دیں اسے جواب سمجھ جائے گی۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

عبادات توقیفی ہوتی ہیں، عبادات میں لاجک ہمارے دماغ کی کارستانی تو ہو سکتی ہے، باقی عبادات میں کونسا حکم کیوں ہے، اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، پھر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ گھر کے وقت بندہ تازہ دم ہوتا ہے، اس وقت نماز کی دو رکعتیں کیوں ہیں، عشاء کے وقت بندہ تھک جاتا ہے، اس وقت رکعتیں چار کیوں ہیں، اس بچی کو سمجھائیں کہ عبادات توقیفی ہیں، اس میں عقلی موشگافیاں نہیں چل سکتی ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ