سوال (4259)
کیا نماز میں سدل کرنا درست ہے۔ جبکہ عبداللہ بن زبیر سے ثابت ہے اور ابراہیم نخعی سے بھی اور مالکی علماء میں سے کثیر سے بھی ہیں کہ وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور اہل مدینہ کا عمل بھی یہی تھا۔ اس کا کوئی مدلل جواب دیں یہ سوال پہلے بھی پوچھا تھا بس یہی جواب ملا ثابت نہیں ہیں کوئی مفصل جواب دے دیجیے۔
جواب
“سدل” کا مطلب ہے نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھوں کو بغیر باندھے، ڈھیلا چھوڑ دینا۔
سینہ پر ہاتھ باندھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے:
عن وائل بن حجر قال:
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يده اليمنى على يده اليسرى في الصلاة.( مسلم، 401)
“میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔”
عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: كان الناس يُؤمَرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة(بخاری، 740)
“لوگوں کو حکم دیا جاتا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھیں۔”
یہ احادیث عملِ نبوی اور صحابہ کے طرزِ عمل کو واضح کرتی ہیں، اور ان میں سدل کا کوئی ذکر نہیں۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے منقول اثر بعض روایات میں آتا ہے کہ:
“كان عبد الله بن الزبير إذا صلى سدل يديه.”
یہ روایت ابن ابی شیبہ وغیرہ کی کتب میں موجود ہے، لیکن یہ روایت مرسل ہے یا ضعیف السند ہے۔ اس پر محدثین نے جرح کی ہے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے متواتر طور پر سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت موجود ہے۔
مزید یہ کہ اگر کسی صحابی سے کسی عمل کا ثبوت ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہو، تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حجت صرف سنتِ نبوی ہے۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول:
ابراہیم نخعی تابعی ہیں، اور ان سے بعض آثار میں سدل کی تائید ملتی ہے۔ لیکن وہ فقیہ کوفہ ہیں، اور کوفیوں میں سدل معروف نہیں رہا۔ ان کا قول، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مقدم نہیں۔
اہلِ مدینہ اور امام مالک رحمہ اللہ یہ درست ہے کہ امام مالک سے سدل کی اجازت منقول ہے، لیکن امام مالک کا خود اپنا عمل ہاتھ باندھنے کا تھا۔ امام مالک کی “موطا” میں ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے:
يضع يده اليمنى على يده اليسرى في الصلاة. (الموطأ، 1/74)
سدل کی نسبت امام مالک کے بارے میں بعض محققین کے نزدیک غلط فہم پر مبنی ہے، کیونکہ امام مالک نے اپنے زمانے میں سدل کو کراہت سے یاد کیا۔
امت کا جمہور علماء، ائمہ اربعہ میں سے تین (ابو حنیفہ، شافعی، احمد) اور محدثین کا اتفاق ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث سے ثابت، صحابہ کا عمل، تابعین اور ائمہ کا تعامل سب سینے پر ہاتھ باندھنے کے مؤید ہیں۔
جن سے سدل منقول ہےان کا سدل عام طور پر نمازِ نفل یا دعا کی کیفیت میں تھا۔ کوئی بھی روایت “نبی صلی اللہ علیہ وسلم” سے سدل کو ثابت نہیں کرتی۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ