سوال (1121)
نماز میں سدل کی کیفیت کیسے ہوتی ہے؟
جواب
آدمی رداء چادر یا بڑے کوٹ یا جبہ وغیرہ “جس کے آستین ہوں” کو اپنے اوپر اس طرح سے لے کہ ہاتھ اسکے نیچے باندھے ہوں اور اسی حالت میں رکوع و سجود کرے۔ [غریب الحدیث لابن الاثیر]
اس حوالے سے وارد حدیث ضعیف ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نہی وارد ہے ، وہ تشبہ بالکفار کی وجہ سے منع کرتے تھے ۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
“آدمی اپنے کندھوں پر اپنا کپڑا اس طرح لٹکائے کہ اس کپڑے کی دونوں جانبوں کو آگے سے ملائے بغیر سیدھا ہی چھوڑ دے”
حکم : نماز میں اس طرح کرنا درست نہیں۔[صحيح ابن حبان : 2289 ، صحيح]
ہاں! البتہ نماز ہوجاتی ہے۔تحفۃ الأحوذی میں شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ ابن حبان والی روایت کے متعلق لکھتے ہیں :”لا ينحط عن درجة الحسن”.
فضیلۃ العالم عبد الخالق سيف حفظہ اللہ
حدیث الباب کے متعلق لکھا ہے۔ ابن حبان میں بھی عسل بن سفیان اور الحسن بن ذکوان والی سند ہے۔ جو سنن ابو داؤد اور سنن ترمذی میں ہے۔
قوله : ( حديث أبي هريرة لا نعرفه إلخ )
قال الحافظ في الدراية بعد ذكر حديث أبي هريرة هذا أخرجه أبو داود والترمذي وابن حبان والحاكم والطبراني في الأوسط ، وزاد أبو داود وابن حبان : وأن يغطي الرجل فاه انتهى . وقال الشوكاني في النيل : وقد اختلف الأئمة في الاحتجاج بحديث الباب يعني حديث أبي هريرة المذكور في هذا الباب فمنهم من لم يحتج به لتفرد عسل بن سفيان وقد ضعفه أحمد . قال الخلال سئل أحمد عن حديث السدل في الصلاة من حديث أبي هريرة فقال : ليس هو بصحيح الإسناد وقال عسل بن سفيان غير محكم الحديث وقد ضعفه الجمهور : يحيى بن معين وأبو حاتم والبخاري وآخرون وذكره ابن حبان في الثقات وقال : يخطئ ويخالف على قلة روايته انتهى . قال الشوكاني : وعسل بن سفيان لم ينفرد به فقد شاركه في الرواية عن عطاء الحسن بن ذكوان وترك يحيى له لم يكن إلا لقوله إنه كان قدريا ، وقد قال ابن عدي : أرجو أنه لا بأس به انتهى كلام الشوكاني .
قلت : في قوله فقد شاركه في الرواية عن عطاء عن الحسن بن ذكوان نظر ، فروى أبو داود حديث الباب في سننه بإسناده عن ابن المبارك عن الحسن بن ذكوان عن سليمان الأحول عن عطاء عن أبي هريرة ، فالمشارك لعسل بن سفيان في الرواية عن عطاء هو سليمان الأحول لا الحسن بن ذكوان .
واعلم أن أبا داود أخرج حديث الباب من الطريق المذكور وأشار إلى طريق عسل بن سفيان ثم ذكر بإسناده عن ابن جريج قال : أكثر ما رأيت عطاء يصلي سادلا قال أبو داود : وهذا يضعف ذلك الحديث انتهى . فحديث الباب عند أبي داود ضعيف .
قلت : حديث الباب عندي لا ينحط عن درجة الحسن فرجال إسناده كلهم ثقات إلا عسل بن سفيان وهو لم يتفرد به بل تابعه سليمان الأحول عند أبي داود كما عرفت وتابعه أيضا عامر الأحول . قال الزيلعي في نصب الراية بعد ذكر متابعة سليمان الأحول ما لفظه : وتابعه أيضا عامر الأحول كما أخرجه الطبراني في معجمه الأوسط عن أبي بحر البكراوي واسمه عبد الرحمن بن عثمان حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن عامر الأحول عن عطاء عن أبي هريرة مرفوعا فذكره ورجاله كلهم ثقات إلا البكراوي فإنه ضعفه أحمد وابن معين وغيرهما وكأن يحيى بن سعيد حسن الرأي فيه وروى عنه . قال ابن عدي : وهو ممن يكتب حديثه انتهى كلام الزيلعي
(1) : عسل بن سفیان کی روایت میں اختلاف ہے۔(دیکھئے علل للدارقطنی)
ھشام الدستوائی عن عسل موقوفا بیان کرتے ہیں اسی ہو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا۔
(2) : دوسرا شوکانی کی بات محل نظر نہیں ہے ، بلکہ حسن بن ذکوان کی روایت میں اختلاف وارد ہوا ہے ، حسن عن عطاء ، حسن عن سلیمان عن عطاء ۔ امام بخاری اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔
(3) : حسن کی روایت سے یہ حدیث معروف نہیں جیسا کہ ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل میں اشارہ کیا اور اس حدیث کو حسن کی۔منکرات میں شمار کیا۔
(4) : امام ابوداؤد (السنن) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (علل)نے عطاء کے عمل کی وجہ سے روایت کو معلوم اور ضعیف قرار دیا ہے۔
وقال دارقطنی روی ھذا الحدیث عطاء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرسلا وفی رفعہ نظر
(5) : عسل کی اس معین روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے “کما نقل عنہ الخلال”
(6) : عسل عن عطاء قال البخاری فیہ نظر [التاریخ]
(7) : ابوبکر ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا لا یصح فی ھذا الباب عن رسول اللہ شیء
(8) : عامر احول کی روایت مرسل ہے کما رواہ البیھقی جیسا کہ ھشیم بن بشیر السلمی نے روایت کیا۔
عامر سے مرفوع روایت کے ضعف کو خود مبارکپوری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
(9) : امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی غرابت کی طرف اشارہ کیا
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز میں سدل کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: گویا یہ یہودی ہیں جو اپنے تہوار سے آئے ہیں۔ [مصنف ابن ابی شیبه ۲۵۹/۲ ح ۶۴۸۰ وسنده صحیح ]
سیدنا ابن عمر رضی الله عنھما نماز میں یہودیوں کی مخالفت کرتے ہوئے سدل کو مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے: یہودی سدل کرتے ہیں۔ [ابن ابی شیبه ۶۴۸۳۲۵۹/۲ و سندہ صحیح]
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ