سوال (5710)

اگر بندے کو ایمرجنسی ہو اور نمازی کے آگے سترہ بھی نہ پڑا ہو نہ ہی اس بندے کے پاس کوئی چیز ہو کے وہ سترا رکھ لے، تو اس صورت میں کوئی گنجائش ہے گزرنے کی یا رُکنا ہی پڑے گا؟

جواب

سترہ بنانا نماز پڑھنے والے کی ذمے داری ہے، اس کو عام کردیں، دوسری بات جو شخص بیٹھا ہے، وہ شخص اجر کما سکتا ہے، پانچ چھ منٹ کی بات ہوگی، الا یہ کہ انتہائی مجبوری ہو، اس کے پاس سترہ بھی نہ ہو، پڑوس میں بیٹھا شخص اس کو ہاتھ کا آسرا دے وہ خود آ سکتا ہے، ایک صورت یہ ہے، آخری صورت انسلال ہے، کھسک جانے کی گنجائش امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت کی وجہ سے ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: پڑوس میں بیٹھا شخص اس کو اپنے ہاتھ کے ذریعے سترے کا آسرا کیسے دے گا؟ اگر کوئی پہلے سے بیٹھا ہے صرف وہ ہی دے سکتا ہے یا کوئی اور شخص بھی ہاتھ کا سترا بنائے گا اور وہ گزر جائے گا؟
جواب: پڑوس میں بیٹھا ہوا تو خیر واضح ہے نا کہ وہ تو سہارا بن سکتا ہے، آپ کی جگہ البتہ کوئی نہیں بیٹھا ہوا، کوئی دوسرا آتا ہے اور آپ اسے جگہ دے دیتے ہیں کہ تم یہاں بیٹھ جاؤ، تو اس میں بھی کوئی گنجائش دی جا سکتی ہے۔ لیکن اتنے تکلّف میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، انسلال سے — میں نے کہا نا — گزارہ کریں۔
بندہ جب اٹھتا ہے تو کبھی سیدھے ہاتھ میں وزن ڈالتا ہے تو دائیں گھوم جاتا ہے، کبھی الٹے ہاتھ میں وزن ڈالتا ہے تو بائیں گھوم جاتا ہے، اس کو انسلال کہتے ہیں۔ یہ مرور نہیں ہے، مرور منع ہے، اسٹریٹ گزرنا سامنے سے منع ہے۔ لہٰذا اس طریقے سے آپ اٹھ کے جا سکتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: یعنی سامنے سے گزرنا (آر پار) منع ہے۔ سامنے سے ہٹنا (کھسک کر ایک طرف ہوجانا) منع نہیں ہے؟
جواب: جی ہاں، یہ اضطرار کی صورت ہے، اس کو عام نہ بنا دیا جائے، ورنہ لوگوں کے لیے دروازہ کھل جائے گا۔ حالت مجبوری میں بصورت انسلال جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ