نصوص قرآن وسنت کی تشریح میں فہم سلف کی اہمیت

1️⃣ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصل مصدر تشریع قرآن وسنت اور صرف قرآن وسنت ہی ہے۔
یہی وحی جلی اور خفی ہے، یہی منزل من اللہ پیغام ہے، انہی کی نصوص و عبارات پر دین کی اساس قائم ہے اور یہی شریعت کی بنیاد ہیں۔
کسی آیت یا صحیح حدیث کے خلاف کسی صحابی یا تابعی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہی زور دیا گیاہے۔
خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید تو کیا سنت رسول کے خلاف کسی کی اجتہادی فکر اور رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔
اس پر مزید کچھ کہنا بھی تحصیل حاصل ہے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرمایا کرتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے علاوہ ہر شخص کا قول قبول کیا جا سکتا ہے اور رد بھی۔

ﻟﻴﺲ ﺃﺣﺪ- ﺑﻌﺪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﺇﻻ ﻭﻳﺆﺧﺬ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﻭﻳﺘﺮﻙ؛ ﺇﻻ
اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ۔۔

نہ صرف زبانی قول کی حد تک بلکہ عملاً بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وحی کے خلاف کسی کی بات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ اس پر بیسیوں مثالیں موجود ہیں، بالخصوص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی کی مثال قابل ذکر ہے۔
حج تمتع سے جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منع کیا تو کس خوب صورتی اور جرات کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے اختلاف کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ دو ٹوک ان کے موقف سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف بھی کیا اور عین ان کے سامنے حج تمتع کا احرام بھی باندھا۔
صحیح بخاری کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:

ما تريد إلاَّ أن تَنهى عن أمْر فَعله النبي صلى الله عليه وسلم. فلما رأى ذلك عليٌّ أهل بهما جميعا

۔۔۔اس باب میں سلف صالحین نہ صرف اتباع سنت پر زور دیتے تھے بلکہ اس کی ادنی مخالفت کو ہلاکت گردانتے تھے۔
۔۔اسلامی تاریخ میں شیخین امامین سیدین خلیفتین جناب ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کس کامقام ہو سکتا ہے۔ جب انہوں نے حج تمتع پر پابندی لگانا چاہی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا حوالہ دیا، اور حج تمتع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک پیش کی،کسی نے کہا، لیکن ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما منع کرتے ہیں۔
اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ تاریخ جملہ کہا:

أُرَاهُمْ سَيَهْلِكُونَ أَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ: نَهَى أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ؟ “

لگتا ہے یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے ۔میں کہتا ہوں قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ کہتے ہیں نہی ابوبکر وعمر۔
(مسند احمد 3121).

ان سے امام مجاہد نے یہی تربیت پائی اور اپنے شاگردوں کو یہی درس دیا۔ ان دونوں ہستیوں کے اس عظیم قول کو امام مالک نے بھی بڑے خوب صورت انداز میں بیان کیا اور انہی کی نسبت سے زیادہ مشہور گیا۔
امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی کہا کرتے تھے۔
(ملاحظہ ہو، اصل صفۃ صلاۃ النبی ،للالبانی، ص 27).
گویا خود سلف صالحین اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ قرآن وسنت کے خلاف کسی رائے کی ذرہ برابر کوئی حیثیت نہیں۔ چاہے وہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ شیخین کی بصیرت وفقاہت عدیم المثال ہے اور ان کی سنت عمومی حالات میں قابل اتباع ہے۔
ائمہ اربعہ کے اقوال بھی اس باب میں مشعل راہ ہیں۔
اہل حدیث مکتب فکر تو ہمیشہ سے اسی نہج پر امت مسلمہ کی تربیت کرتا آیا ہے۔

قرآن وسنت کے بالمقابل فہم سلف کو کھڑا کرنا، اس موضوع کے ساتھ بدترین نا انصافی ہے۔
اور خلط مبحث کی ایک عجیب وغریب مثال جس پر ہسی آتی ہے اور رونا بھی۔
ہسی منکرین فہم سلف کی تلبیس پر اور رونا قائلین کے اسلوب بیان اور طرز تقریر پر۔
الغرض پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ فہم سلف سے مراد کوئی ایسی رائے یا اجتہاد نہیں جو قرآن وسنت کی نصوص کے خلاف ہو۔
بھلا کوئی سچا مسلمان قرآن وسنت کے بالمقابل کسی صحابی یا تابعی کی رائے کو حجت کہنے کا خیال بھی دل میں لا سکتا ہے، کیا کوئی مومن صادق ایسے صریح کفر کا سوچ بھی سکتا ہے ؟!!

((فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا))

اس لیے اس امت پر ذرا رحم کیجیے اور بات کو درست تناظر اور حقیقی سیاق سے ہٹانے کی کوشش مت کیجیے۔
اسے منکرین فہم سلف کی چالاکی کہیے یا سادگی کہ انہوں نے فہم سلف کو قرآن وسنت کے متوازی ایک چیز بنا دیا، حالانکہ یہ تو سوچنا بھی صریح کفر ہے۔
3️⃣ فہم سلف سے کیا مراد ہے؟ اس کی تعیین کا حق منکرین فہم سلف نہیں بلکہ قائلین کو پہنچتا ہے۔ اور قائلین کے نزدیک فہم سلف کا بالاختصار مفہوم درج ذیل ہے۔
1. سلف کا لغوی معنی اگرچہ تمام گزرے ہوئے لوگ ہیں، لغوی لحاظ سے دور جاہلیت کے لوگ بھی بدترین سلف ہی ہیں۔
لیکن اصطلاحی طور پر سلف سے کیا مراد ہے، یہاں بھی بعض دوستوں نے ہاتھ کی صفائی دکھائی ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہر ایک فرقے کے اپنے سلف ہیں۔ حالانکہ اصطلاحی طور پر سلف سے مراد صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں یا صحابہ وتابعین یا بعض کے نزدیک صحابہ و تابعین کے ساتھ تبع تابعین بھی شامل ہیں۔ ہمارے نزدیک سلف سے مراد بنیادی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، تابعین اور تبع تابعین ہیں۔
2. ان تینوں مقدس جنریشنز کی تخصیص خود قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے مستفاد ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

خیرُ القرون قَرنیْ، ثمّ الذین یلونَھم ،ثمّ الذین یلونَھم..

۔۔۔اسی طرح یہ حدیث جس میں علم کی اشاعت کو خیر القرون کے ساتھ خصوصی طور پر منسلک کردیا گیا ہے۔
تسمعون، ويسمع منكم، ويسمع ممن سمع منكم”.تم لوگ (علم دین) مجھ سے سنتے ہو اور لوگ تم سے سنیں گے اور پھر جن لوگوں نے تم سے سنا ہے لوگ ان سے سنیں گے“۔۔
ابوداؤد ،3659
۔۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دیدار سے مشرف ہونے والے نفوس قدسیہ کے ساتھ خیر کو وابستہ کیا، اسی طرح صحابہ کی زیارت سے مشرف ہونے والے تابعین کے ساتھ بھی خیر کو لازم و ملزوم قرار دیا اور تبع تابعین کے ساتھ بھی خیر کو جزو لاینفک قرار دیا

لا تَزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رآني وصاحَبَني، واللَّهِ لا تزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رأى مَن رآني وصاحبَ مَن صاحَبَني، واللَّهِ لا تزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رأى مَن رأى مَن رآني وصاحَبَ مَن صاحَبَ مَن صاحَبَني.
السنة ،لابن ابي عاصم، (1481)، الصحيحة للألباني

اور ان کے فہم سے مراد
1. قرآن مجید کی آیات بینات کی تشریح میں ان سے منقول وہ اقوال ہیں جو آیت مبارکہ کے تفسیر کے ضمن میں ان سے سند صحیح کے ساتھ ثابت ہوں۔ اگر وہ متفق ہوں تو اجماع کے درجے میں ہیں، اگر وہ مختلف ہوں تو حق پھر بھی انہی کے اقوال میں منحصر ہوگا۔
اس سے باہر ایسا قول اختیار کرنا جس سے ان کی تغلیط ہوتی ہو درست نہیں ہوگا۔
2. اسی طرح حدیث رسول کی کسی عبارت کے ضمن میں ان کی توضیح بھی فہم سلف ہے۔
3. قران وسنت کی نصوص کے ساتھ ان کا طرز تعامل بھی فہم سلف میں شامل ہے۔

4. خیر القرون کے مجموعی طور پر عقائد وافکار فہم سلف میں خاص مقام رکھتے ہیں۔
اہل السنہ کی کتب عقائد قرآن وسنت کی وہ تشریح و تعبیر پیش کرتی ہیں جو خیر القرون میں مسلم تھی۔
ذات باری تعالیٰ پر ویسا ایمان جیسے سلف نے قرآن وسنت سے سمجھا، تقدیر پر ایمان انہی کے منہاج پر، عذاب قبر، یوم آخرت ،حوض کوثر ،شفاعت، جنت و جہنم، ایمان کی حقیقت، مقام صحابہ کرام اور ان کے درجات ان سب کے متعلقہ نصوص کو سمجھنے میں جتنے بھی گم راہ فرقوں نے گم راہیاں ایجاد کیں، سب کی بنیادی وجہ فہم سلف سے دوری ہے۔
شرک کی دلدل میں وہی لوگ جا گرے جنہوں نے توحید وشرک سے متعلق آیات بینات کو سلف کی راہ سے ہٹ کر سمجھا۔ کسی نے عقل کو معیار بنایا، کسی نے مخصوص اہل بیت کو فہم نصوص میں حرف آخر سمجھا، اور کسی نے اپنے اپنے اکابر تراش لیے، اور کچھ تجدید پسندوں نے اپنی خود ساختہ، تحریف پر مبنی، جدیدیت سے مرعوب غلامانہ ذہنیت کو ہی خالص قرآن کا نام دے ڈالا۔ ان سب اندھیروں میں اہل السنہ نے ہی ایک قندیل روشن کی۔
اہل السنہ کے نزدیک قرآن وسنت کی نصوص کو سمجھنے میں خیر القرون کا مجموعی فہم میزان ہے۔
گویا فہم سلف سے مراد قرآن وسنت کی وہ تعبیر ہے جو خیر القرون میں رائج تھی۔
اس معنی میں فہم سلف کو حجت کہنا دین میں کسی تیسرے مصدر تشریع یا سورس آف لاء کا اضافہ نہیں، بلکہ قرآن وسنت کے صحیح فہم تک رسائی کے لیے درست منہاج کی نشان دہی ہے۔
جس طرح ہم یہ کہیں کہ قرآنی الفاظ کی تشریح کے لیے عربی لغت کا فہم ضروری ہے تو کوئی ذی عقل یہ نہیں کہے گا کہ یہ تو قرآن وسنت کے متوازی ایک تیسری چیز کا اضافہ ہے! بلکہ ہر صاحب شعور کہے گا کہ عربی زبان کی ضرورت در حقیقت قرآن وسنت کی لسانی شہادت اور خدمت کی حیثیت سے ہے، نہ کہ ایک متوازی تیسری وحی کے طور پر۔
بعینہ اسی طرح قرآن وسنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کی تشریحات ہمارے نزدیک ایک تاریخی ضرورت ہے اور لسانی بھی،ایک بدیہی تقاضا ہے اور ایمانی وروحانی بھی۔
فہم سلف کو اگر آپ کسی چیز کے متوازی کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو درحقیقت وہ قرآن وسنت نہیں، بلکہ قرآن وسنت کا وہ فہم ہے جو آپ ساڑھے چودہ صدیوں کے بعد سمجھے ہیں، فتنوں کے دور میں، ایمان ویقین کے ضعف کے ساتھ، موجودہ دور کی پوری فتنہ سامانیوں اور ذہنی سانچے کے ساتھ۔
اب فیصلہ آپ پر ایک طرف ایک آیت کی تفسیر صحابہ وتابعین کی جماعت کر رہی ہے اور دوسری طرف اس دور کے مفتون مسکین کر رہے ہیں، ابھی بھی یہ صحیح موازنہ نہیں اگر تو آج کے کسی محقق کی تفسیر و تعبیر فہم سلف کے متضاد نہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، اصل موازنہ یہ ہے کہ ایک کسی آیت یا حدیث سے صحابہ کرام وتابعین عظام کی جماعت کچھ سمجھ رہی ہو اور آپ اس کی مخالف سمت میں لغت سے کھنگال کر یا سائنس وفسلفہ کی سان پر چڑھا کر کوئی الٹ ہی تشریح لیے بیٹھے ہوں تو یہاں فہم سلف کی اہمیت کا موازنہ بنتا ہے۔
پبلک کے لیے آپ کا فہم حجت ہے یا صحابہ وتابعین کا؟
آپ کی تشریح مقدم ہے یا صحابہ وتابعین کی۔
3️⃣ اس معنی میں فہم سلف کی اہمیت پر خود قرآن مجید کی آیات بینات، احادیث مبارکہ اور اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شاہد عدل ہیں۔

4️⃣ قرآن مجید میں جو سینکڑوں آیات مبارکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فضیلت بتا رہی ہیں وہ مطلق ہیں، ان سے جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے ان کے علم کا تزکیہ بھی آپ سے آپ ہی مترشح ہوتا ہے۔ کیونکہ علم ہمیشہ عمل سے مقدم ہوتا ہے جب علم درست ہو تو تبھی عمل بھی درست ہوتا ہے، جب علم ہی غلط ہو تو عمل کیسے درست ہو سکتا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے مفلحون، مخلصون، صادقون، کتب فی قلوبہم الایمان، ألزمہم کلمۃ التقوی، رضوان کے سرٹیفکیٹس محض لفظی فضائل نہیں ہیں، بلکہ ان کے اعمال و افکار اور علم وعمل کا بھی تزکیہ ہیں۔
بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کو معیار قرار دینا خود ان کے عقائد تک کا ربانی سرٹیفکیٹ ہے۔
4️⃣ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس روحانی اور لغوی وتاریخی لحاظ سے علم دین کے وہ تمام اسباب مجتمع ہوگئے تھے جن کا بعد کے لوگوں کو عشر عشیر بھی میسر نہیں۔
مجموعی طور پر جو صحابہ کے عمل اور بعد والوں کے عمل میں تفاوت ہے وہی ان کے فہم میں بھی من حیث الجماعت تفاوت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی درایت تفسیری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اگرچہ ان کے اقوال کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر صحابی کے کسی مشہور تفسیری قول کی خلاف ورزی بھی ائمہ اصول نے جائز قرار نہیں دی۔(مقدمہ اصول تفسیر).
بلکہ غیبیات کے متعلق ان کے ارشادات کو مرفوع حکمی کا درجہ حاصل ہے۔
بشرطیکہ وہ اسرائیلیات سے مستفاد نہ ہو۔
5️⃣ احادیث مبارکہ میں بھی جابجا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علم وفکر اور عقیدہ وعمل کے مناقب درج ہیں۔
یہ حدیث ملاحظہ کیجیے

((وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول اللّٰه؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي))

’’اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک ملت کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔‘‘ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سا فرقہ ہو گا؟ فرمایا: ’’(وہ لوگ جو اس منہج پر ہوں) جس پر آج میں ہوں اور میرے صحابہ۔‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صرف اتنا نہیں فرمایا: ’’ ما أنا عليه‘‘ یعنی وہ راستہ و منہج جس پر میں ہوں، حالانکہ یہیں توقف فرمانا ہوتا تو فرما سکتے تھے، لیکن آپ نے فرمایا: ((ما أنا عليه وأصحابي)) ’’جس راہ پر میں خود ہوں اور میرے صحابہ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
صحابہ کا منہج اور صحابہ کا فہم دین، نصوص وحی کو لینے اور سمجھنے کے معاملے میں بعد والوں کے لیے حجت ہے۔ صحابہ کا فہم وحی کے استیعاب کی بابت، پیمانہ و مقیاس کا درجہ رکھتا ہے۔ دین کے وہ مُسلّمات جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں قائم ہو گئے اور حق و باطل کی جو بنیادیں اور نصوص وحی سے استدلال کے جو اصول ان کے دور میں قائم ہو گئے، بعد والے خصوصاً اختلاف و تفرقہ کے ادوار سے وابستہ لوگ انہی بنیادوں، انہی مُسلّمات اور انہی اصولوں کو اپنانے اور انہی پر کاربند رہنے کے پابند ہیں۔

6️⃣ فہم سلف کی اہمیت کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والے، سفر وحضر میں آپ کی رفاقت مفخورہ سے فیض پانے والے، ملائکہ کے نزول کا مشاہدہ کرنے والے، آیات کی تنزیل کا مصداق بننے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی اگر کسی آیت کو سمجھ نہیں پائے اور کم وبیش ساڑھے چودہ سو سال کے بعد کسی محقق کو اس آیت کا ایسا درست مطلب دریافت ہوا ہے جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی تغلیط ہو رہی ہے، فہم سلف کے منکرین در حقیقت یہ کہ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ فکر خود فصاحت قرآن مجید پر ایک سوال کھڑا کرتی ہے؟
یعنی نعوذ باللہ قرآن مجید ایک ایسی پیچیدہ پہیلی کی زبان میں نازل ہوا ہے کہ خیر القرون میں کوئی بھی آیت کے درست فہم تک رسائی حاصل نہیں کرسکا! یعنی فہم سلف آیت کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا رہا، اور خلف میں سے ایک صاحب نے درست مفہوم تک رسائی حاصل کی۔
جیسا کہ بنی اسرائیل کا مطلب ایک صاحب کہ رہے تھے کہ امت مسلمہ ہے۔ اور اس طرح کی دیگر ہفوات سے اب تو سوشل میڈیا لتھڑا پڑا ہے۔
7️⃣ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام رحمہم اللہ کا طرز عمل بھی واضح کرتا ہے کہ وہ کسی صحابی کی انفرادی، اجتہادی رائے اور نصوص کی تعبیر اور دین کی مجموعی تفہیم میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام میں فرق کرتے تھے۔
انفرادی آراء کی مثالیں گزر چکی ہیں۔
صحابہ کا مجموعی طور پر فہم کیا مقام رکھتا ہے، اس بارے میں چند آثار واقوال ملاحظہ ہوں۔
1. سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

( مَن كانَ مُسْتَنًّا، فَلْيَسْتَنَّ بمن قد ماتَ، فإنَّ الحيَّ لا تُؤمَنُ عليه الفِتْنَةُ، أولئك أصحابُ محمد- صلى الله عليه وسلم، كانوا أفضلَ هذه الأمة: أبرَّها قلوبًا، وأعمقَها علمًا، وأقلَّها تكلُّفًا، اختارهم الله لصحبة نبيِّه، ولإقامة دِينه، فاعرِفوا لهم فضلَهم، واتبعُوهم على أثرهم، وتمسَّكوا بما استَطَعْتُم من أخلاقِهم وسيَرِهم، فإنهم كانوا على الهُدَى المستقيم ).
والأثر رواه ابن عبد البر في “جامع بيان العلم وفضله” (2/947ـ رقم 1810) ، وفي إسناده ضعف، إلا أنه أثر مشهور متداول في مصنفات أهل السنة، ومعناه صحيح مستقر عندهم …

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول فہم سلف کا ٹھیک ٹھیک مقام متعین کرتا ہے۔ کہ آپ دین کی تعبیر میں جب یہ فیصلہ کرنا چاہیں کہ صحابہ کرام کے پیچھے چلوں یا کسی معاصر مفکر کی تقلید کروں؟
تو صحابہ کا دامن تھام لینا۔
2. سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھ ہزار خوارج سے مناظرہ کرتے ہوئے، فہم سلف کو سر فہرست بطور مقدمہ پیش کیا اور تاریخی جملہ کہا، جو آج بھی منکرین فہم سلف کا منہ بڑا رہا ہے۔

أتيتكم من عند أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم المهاجرين، والأنصار، ومن عند ابن عم النبي صلى الله عليه وسلم وصهره، وعليهم نزل القرآن، فهم أعلم بتأويله منكم، وليس فيكم منهم أحد۔
(نسائی،حاکم،بیہقی).

3. مسجد میں مخصوص اجتماعی ذکر کے رد میں جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سنت رسول اور صحابہ کے طرز عمل کا حوالہ دیا۔

والذي نفسي بيده أإنكم لأهدى مِن أُمة محمد صلى الله عليه وآله وسلم ۔۔(دارمی).

4. حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تو باقاعدہ اپنے عامل عدی بن ارطاۃ کے نام خط لکھ کر انہیں اتباع سنت اور منہج سلف کا درس دیا۔

فارض لنفسك بما رَضِىَ به القوم لأنفسهم؛ فإنَّهم عن علمٍ وقفُوا، وبِبَصرٍ نافذٍ كفُّوا،(الشريعة،للآجري،539).

8️⃣ کسی ایک شخصیت کے غلو کے رد عمل میں فہم سلف کو تقلید شخصی کی طرح کی کوئی چیز بنا دینا اور پھر بلا امتیاز تمام سلف صالحین کو لتاڑ دینا بہادری نہیں، بد نصیںی ہے اور سوختہ بختی۔
جس مفہوم میں فہم سلف کو ہم ایک مقام دے رہے ہیں یہ علماء اہل سنت کے ہاں کبھی مختلف فیہ مسئلہ نہیں رہا۔
4. الغرض اس معنی میں فہم سلف کی اہمیت پر امت کا اجماع رہا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو اس معنی میں فہم سلف کو دین کی ایک بدیہی حقیقت اور بنیادی فطری ضرورت قرار دیا ہے۔
آیات واحادیث ہر تدبر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ بلکہ اس معنی میں فہم سلف کی اہمیت پر اہل السنہ کا اجماع نقل کیا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” وَمِنْ الْمَعْلُومِ بِالضَّرُورَةِ لِمَنْ تَدَبَّرَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَمَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ مِنْ جَمِيعِ الطَّوَائِفِ: أَنَّ خَيْرَ قُرُونِ هَذِهِ الْأُمَّةِ – فِي الْأَعْمَالِ وَالْأَقْوَالِ وَالِاعْتِقَادِ وَغَيْرِهَا مِنْ كُلِّ فَضِيلَةٍ أَنَّ خَيْرَهَا -: الْقَرْنُ الْأَوَّلُ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَمَا ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَأَنَّهُمْ أَفْضَلُ مِنْ الْخَلَفِ فِي كُلِّ فَضِيلَةٍ: مِنْ عِلْمٍ وَعَمَلٍ وَإِيمَانٍ وَعَقْلٍ وَدِينٍ وَبَيَانٍ وَعِبَادَةٍ وَأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالْبَيَانِ لِكُلِّ مُشْكِلٍ. هَذَا لَا يَدْفَعُهُ إلَّا مَنْ كَابَرَ الْمَعْلُومَ بِالضَّرُورَةِ مِنْ دِينِ الْإِسْلَامِ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ؛ كَمَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ .. ” انتهى من “مجموع الفتاوى” (4/157) ۔

9️⃣ بعض لوگوں نے فہم سلف کا انکار کرتے کرتے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کے مقام و مرتبہ پر افسوس ناک طریقے سے ہاتھ صاف کردیا ہے۔
اور یہاں تک لکھ مارا ہے کہ بڑے بڑے گم راہ فرقے عہد سلف ہی میں پروان چڑھے تھے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔ یہ سلفیت کا بغض ہے ،علم کا خمار ہے یا قائلین فہم سلف کے زور خطابت کے رد عمل میں اندھا زور تحریر، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن کسی صاحب علم اور احترام سلف ملحوظ رکھنے والے ادنی طالب علم سے اس بلنڈر کی توقع نہ تھی۔
شاید سلف کے اصطلاحی مفہوم اور لغوی مفہوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے یہ سطحی اور جذباتی الفاظ نکل گئے ہیں، سلف سے مراد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے نقش پا پر چلنے والے تابعین و تبع تابعین ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کیا کبھی کوئی بدعتی فرقہ بھی رہا ہے؟
کہاں سلف کی مقدس تعبیر اور کہاں اہل بدعت کے گروہ۔
بھلے لوگو اگر ایسے بھونڈے اعتراض ہی کرنے ہیں تو سیدھا ہی کہو،سلف میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والا خارجی بھی شامل تھا،عہد صحابہ تو درکنار وہ تو عہد نبوی میں پایا جانے والا “سلف”تھا!!
ذو الخویصرہ، معبد جہنی، واصل بن عطاء، جیسے لوگ اس دور کے سلف کی نمائندگی نہیں کرتے، نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے منہج پر تھے۔ یہ اس دور کے شاذ اور گم راہ لوگ ہیں۔ اس بنا پر یہ اہل السنہ کے نزدیک ان کے سلف نہیں ہیں، ان کو سلف میں شامل کرکے سلف صالحین پر چڑھائی کرنا ایسے ہی جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تقدس پر بعض روافض جھٹ سے کہتے ہیں کہ” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”میں تو منافقین بھی شامل تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے عہد نبوی میں ابن ابی بھی تھا اور دیگر منافقین بھی، جس طرح ان کی آڑ میں صحابہ کی پوری مقدس جماعت کو مشکوک بنانا سخت بد تہذیبی ہے، اسی طرح سلف صالحین کے عہد مبارک میں چند گمراہ فرقوں کا نام لے کر سلف صالحین کی ہی پوری جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا نا انصافی ہے اور بد اخلاقی بھی۔ والعیاذ باللہ
علم کی دنیا میں اصطلاحات کے ساتھ یہ کھلواڑ افسوس ناک ہے اور باعث حیرت بھی۔
🔟 اسی طرح فہم سلف پر اعتراض کرتے ہوئے بعض سلف کی شواذ آراء اور اجتہادی اخطاء کو پیش کرنا بھی، بالکل سطحی اعتراض ہے۔
ہر منصف مزاج شخص اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ ایسی شاذ آراء اس کیٹیگری میں آتی ہیں جو قرآن وسنت سے متصادم ہیں۔
ان شاذآراء کو شاذ آراء ہی کہیے، یہ بعض سلف کا انفرادی فہم ہے، نمائندہ فہم سلف نہیں۔
1️⃣1️⃣ آخر میں یہ گزارش کرتے چلیں کہ بعض لوگ فہم سلف کی اصطلاح پر ہی چیں بجبیں ہیں۔ اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات پیش کرکے رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ بعض اصطلاحات ایک بدیہی حقیقت ہونے کے باوجود ان کی منطقی وفنی تعریف میں کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے۔
لیکن اس اختلاف سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس اصطلاح کی عملی حقیقت ہی کوئی نہیں۔
یہ صرف فہم سلف کی اصطلاح کا مسئلہ نہیں، ہر واضح ترین چیز میں چند سطحی اشکالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ منکرین حدیث، حجیت حدیث کے باب میں کبھی موضوع احادیث کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، کبھی اختلاف روایات کا۔ لیکن جب ہم حجیت حدیث کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں تو ایک مجموعی حیثیت سے ارشادات نبویہ کی حجیت کی بات کرتے ہیں۔تطبیق کے لحاظ سے پھر احادیث کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔
بعینہ اسی طرح کم از یہ تو ہر صاحب عقل کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جس دور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون کہا ہے اور جس جنریشن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کریم کی نگرانی میں تربیت کی ہے، ان کا قرآن وسنت کے ساتھ تعامل میں مخصوص مزاج، خاص منہج، لگے بندھے اصول وضوابط، عقائد اور افکار، اور طرز عمل تھا۔ یہ تو ایک تاریخ حقیقت تسلیم کیجیے، بس اسی تاریخی حقیقت کو ہم فہم سلف کہتے ہیں اور قرآن وسنت کی تشریح میں بعد کے لوگوں کی تعبیرات پر اسے مقدم سمجھتے ہیں۔
اگرچہ تطبیق کے میدان میں پھر اس کی درجہ بندی اور الگ تفصیلات ہیں۔

2️⃣1️⃣ فہم سلف کی مندرجہ بالا تمام تر اہمیت کے باوجود بعض لوگوں نے جو اس طرح کا انداز اپنایا ہے۔ کہ ہزار آیات بھی فہم سلف کے خلاف ہوں تو تسلیم نہیں، یا قرآن وسنت پر نظر نہیں کریں گے،
سلف کے قدموں میں اپنی عقل رکھ دیں گے، بس، ہمیں حسن ظن ہے کہ متکلم نے جوش خطابت میں ایسے الفاظ کہے ہیں۔ لیکن بہر حال ایسے غلو پر مبنی اقوال سراسر غلط ہیں، نصوص قرآن و سنت کے تقدس کے بھی شایان شان نہیں۔
بلکہ اس طرح کی باتیں خود منہج سلف کے بھی خلاف ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے جذباتی جملے تاریخی طور پر بدترین غلط مفروضے ہیں اور کچھ نہیں۔ آئندہ ان سے اجتناب اور سابق سے رجوع ضروری ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی فہم دین اور شرعی بصیرت واخلاص کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ آمین

تحریر: ڈاکٹر عبید الرحمن محسن

یہ بھی پڑھیں: مقامی لباس سے ہٹ کر لباس پہننا