نصوص کی ہیبت و عظمت اور منہج سلف

اس بات میں کوئی دو رائے ہی نہیں کہ دین اسلام کا اصل ماخد قرآن و سنت ہیں۔ قرآن وسنت حاکم ہیں باقی پوری امت محکوم ہے۔ پوری امت پہ قرآن وسنت کے فیصلوں کے یہ سامنے سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے اور یہ تسلیم کیے بغیر کسی بھی انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن و سنت کی نصوص کی دلالت بعض اوقات قطعی ہوتی ہے اور بعض اوقات ظنی۔ دلالت کے قطعی ہونے کا معنی یہ ہے کہ ایک معنی کے علاوہ کسی دوسرے معنی کا احتمال نا ہو اور دلالت کے ظنی ہونے کا معنی یہ ہے کہ ایک سے زیادہ معانی کا احتمال ہو۔ وہ نصوص جن کی دلالت قطعی ہو تو ان کی موجودگی میں کسی بھی امتی کی بات کی کوئی حیثیت نہیں۔ تاہم اگر نصوص کی دلالت ظنی ہو تو پھر اس کا وہی مفہوم معتبر ہوگا جس پہ سلف صالحین کا اتفاق ہو اور اگر سلف صالحین کا اس کے مفہوم میں اختلاف ہو تو پھر وہ مفہوم معتبر ہو گا جس کی شرعی دلائل سے تائید ہو رہی ہو۔ خلاصہ یہی ہے کہ دین اسلام میں اصل اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس اطاعت کے لیے سلف صالحین کا فہم ممد و معاون ہے لیکن فہم سلف کی اہمیت بیان کرتے ہوے کوی بھی ایسی تعبیر اختیار کرنا جس سے قرآن وسنت کی نصوص کی اہمیت وہیبت میں کمی آے کسی طور پہ بھی قابل قبول نہی اور ایسی ہر تعبیر سے مسلک اہلحدیث مکمل بری ہے۔
توحید باری تعالیٰ کے بعد مسلک اہلحدیث کی جو پہچان ہے وہ قرآن و سنت کی نصوص کی بلا مشروط اطاعت ہے اور یہی سلف صالحین کا منہج ہے۔ذیل میں ہم کچھ ایسی مثالیں پیش کریں گے جن سے واضح ہوگا کہ ہر دور میں ائمہ سلف اسی منہج پہ قائم رہے

امام احمد رحمہ اللّٰہ سے پوچھا گیا کہ بعض لوگ حدیث کو چھوڑ کر سفیان ثوری کی رائے کی طرف جاتے ہیں اس پہ امام احمد رحمہ اللّٰہ نے جو جواب دیا وہ سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق ہے کہ مجھے ان لوگوں پہ تعجب ہوتا ہے جو کسی حدیث کی سند کی صحت کو جان لینے کے بعد بھی سفیان ثوری رحمہ اللّٰہ کی رائے کی طرف جاتے ہیں۔

عجبت لقوم عرفوا الاسناد وصحته يذهبون الى رأى سفيان۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ نے اعلام الموقعین میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ کے فتاویٰ کے اصول بیان کرتے ہوے پانچ اصول بیان کیے ہیں جن کی بنیاد پہ امام احمد رحمہ اللّٰہ فتاوی دیا کرتے تھے جن میں پہلا اصول ہی قرآن وسنت کی نصوص کو بیان کیا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللّٰہ کسی عمل کسی رائے اور کسی قول چاہے وہ صحابی کا ہی کیوں نا ہو کو صحیح حدیث پہ مقدم نہیں کرتے تھے۔

ولم يكن يقدم على الحديث الصحيح عملا ولا رأيا ولا قياس ولا قول صاحب(اعلام الموقعين٣١)

اسی طرح حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ مزید فرماتے ہیں:
اور ہر وہ قول جو نصوص کے مخالف ہو امام احمد رحمہ اللّٰہ اس قول اور صاحب قول کی طرف کوئی التفات نہیں کرتے تھے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔

ولم یلتفت الى ما خالفه ولا من خالفه كائنا من كان ( اعلام الموقعين٣١)

اس حوالے سے حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ نے بہت ساری ایسی مثالیں دی ہیں جن میں امام احمد رحمہ اللّٰہ نے صریح نصوص کی وجہ سے اکابر مجتہد صحابہ حتیٰ کہ خلفائے راشدین تک کے اقوال کو قبول نہیں کیا اور ان کے اقوال کے خلاف فتویٰ دیا ۔تفصیل کے لیے شائقین حافظ رحمہ اللّٰہ کی کتاب اعلام الموقعین کے شروع میں ہی اس بحث کو مفصل طور پہ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی بحث میں حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اجماع کے دعوے کر کے نصوص کو رد کیا لیکن امام احمد رحمہ اللّٰہ ان دعووں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ بقول حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ امام رحمہ اللّٰہ اور دیگر تمام ائمہ محدثین احادیث نبویہ کے مقام کو اس بات سے بہت بلند سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ایسے وہمی اجماع کو احادیث نبویہ پہ مقدم کیا جائے جس اجماع کی بنیاد صرف یہ ہو کہ ہمیں اس مسئلے میں سلف میں سے کسی مخالف قول کا علم نہیں ہو سکا۔

ونصوص رسول الله أجل عند الأمام احمد وسائر ائمة الحديث من أن يقدموا عليها توهم اجماع مضمونه عدم العلم بالمخالف (اعلام الموقعين٣١)

اس کے بعد حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر ہم محض سلف کے اختلاف کے بارے علم نا ہونے پہ اجماع کا دعویٰ کر کے اس وہمی اجماع کو نصوص پہ مقدم کرنا شروع کردیں تو نصوص پہ عمل بالکل ہی معطل ہو جائے گا۔ ولو ساغ لتعطلت النصوص(اعلام الموقعين٣١)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے جو امام احمد رحمہ اللہ کا منہج بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ اگر کسی نص کی دلالت قطعی ہو تو اس پہ عمل کرنا واجب ہے چاہے اس کا مخالف صحابی ہی کیوں نا ہو ۔ہاں اگر کسی نص کی دلالت ظنی ہو تو ایسی صورت میں سلف صالحین کا بیان کردہ فہم ہی معتبر ہو گا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ جو منہج امام احمد رحمہ اللّٰہ کا حافظ ابن قیم رحمہ اللّٰہ نے بیان کیا ہے یہ کوئی ان کا انفرادی منہج نہیں بلکہ جمیع ائمہ محدثین کا یہی منہج ہے اور ہر دور میں اہل حق اسی مبارک منہج پہ قائم رہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ اس عظیم شخصیت تک جا پہنچا جس کو دنیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ رحمہ اللّٰہ کا علمی میدان میں یہ عظیم کارنامہ تھا کہ آپ نے نصوص کی اس ہیبت کو دوبارہ زندہ کیا جو سلف کے دور کا خاصہ تھی اور اس کے بعد اب مفقود ہو چکی تھی۔ آپ کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ آپ کی کتب میں جس چیز پہ سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ یہی بات ہے کہ نصوص کے سامنے کسی کے بھی قول و فعل یا رائے کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔ شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ کی یہ بات کس قدر عظیم ہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ہوتے ہوئے کسی امام اور قیاس کی اطاعت کی ضرورت نہیں رہتی اور اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے ہوتے ہوئے کسی امام یا قیاس کی اطاعت کوئی فائدہ نہیں دیتی۔

وهذا يبين ان مع طاعة الله ورسوله لا يحتاج إلى طاعة امام او قياس ومع معصية الله ورسوله لا ينفع طاعة امام او قياس (مجموع الفتاوى68/19)

شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ کے بعد ان کے عظیم تلامذہ حافظ ابن قیم، حافظ ذہبی حافظ ابن عبد الہادی اور حافظ ابن کثیر رحمھم اللّٰہ بھی اسی منہج پہ قائم رہے اور اسی منہج کی دعوت دیتے رہے۔ پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے ماضی قریب میں عرب کے نجدی علماء تک پہنچا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب اور ان کی اولاد و شاگردوں کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ حنبلی مذہب سے انتساب کے باوجود بھی نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا اور نصوص کے مخالف قول کو رد کردینا ان علماء کی عظیم خوبی تھی جس پہ الدرر السنیہ جیسا عظیم مجموعہ رسائل وفتاویٰ شاہد ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ ان علماء کو مخاطب کر کے یہ بات کہتے ہیں جن کا نظریہ تھا کہ ہم قرآن وسنت کی نصوص سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتے کہ تمہارا یہ کہنا اہل کتاب کے اس قول کی طرح ہے جو کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پہ پردے چڑھے ہوے ہیں۔(الدرر السنیہ 1/48)

اگر بات برصغیر کے علماء اہلحدیث کی کریں تو کوئی شک نہیں برصغیر کے علماء اہلحدیث نے جو عمل بالکتاب والسنۃ کی تحریک چلائی وہ اپنی مثال آپ ہے اور بالکل بھی تعارف کی محتاج نہیں۔یہ اسی تحریک کے مبارک ثمرات ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس سر زمین پہ کتاب وسنت کے حاملین کی کثیر تعداد موجود ہے۔ رحمھم اللہ علیھم اجمعین ۔فخر بر صغیر شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں

جب انسان اپنے امام کے قول کے خلاف دلالت کرنے والی نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول صریح احادیث کی طرف رجوع کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے انسان کے لیے کس طرح کسی معین شخص کی تقلید کا التزام کرنا جائز ہو سکتا ہے۔ایسا شخص اگر اپنے امام کے قول کو نہیں چھوڑتا تو اس میں شرک کا شائبہ ہے

كيف يجوز التزام تقليد شخص معين مع تمكن الرجوع الى الروايات المنقولةعن النبى صلى الله عليه وسلم الصريحة الدالة خلاف قول الأمام المقلد فان لم يترك قول امامه ففيه شائبة من الشرك( تنویر العینین49)

شاہ صاحب رحمہ اللہ کا یہ قول کس قدر صریح ہے کہ اگر نصوصِ کی طرف رجوع کرنے کی قدرت ہو تو امتی کے قول کی پیروی جائز نہیں تو جب کس مسئلہ میں نصوص ہی صریح اور قطعی الدلالہ ہوں اور وہ انسان پہ واضح ہو چکی ہوں وہاں کسی امتی چاہے صحابی کا ہی قول ہو اس کی پیروی کیسے جائز ہو سکتی ہے۔

جب یہ بات واضح ہے کہ ہر دور میں ہمارے اسلاف کا یہ عظیم منہج رہا تو آج کل جو بعض لوگوں کی جانب سے فہم سلف کی حجیت کے نام پہ نصوص کی ہیبت و عظمت کو کم کیا جا رہا یہ کسی طور پہ بھی قابل قبول نہیں۔ حضرت شیخ امن پوری صاحب قابل قدر محقق ہیں اور ہم جیسے طلباء ان کی تحریروں سے وقتاً فوقتا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن شیخ صاحب کا فہم سلف کے حوالے سے منہج قطعا وہ نہیں ہے جو اوپر بیان کردہ ائمہ وعلماء نے اپنی کتب میں بیان کیا۔ ہمارے علماء و ائمہ ہر دور میں کتاب وسنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے فہم سلف کی اہمیت پہ زور دیتے رہے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ قرآن وسنت کی نصوص کے بارے میں یہ کہا جاے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں یا یہ کہا جائے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم قرآن وحدیث کی طرف دیکھیں یا ایک ہزار آیات بینات جو کسی مسئلے میں اپنے مفہوم میں قطعی ہوں اور سلف نے ان سے وہ مسئلہ اخذ نا کیا ہو تو اس مسئلے کی کوئی حیثیت نہیں حالانکہ جو نص کسی مفہوم میں قطعی ہو اور سلف سے وہ مفہوم مخفی رہ جائے یا سلف اس مفہوم کا انکار کریں ایسا ممکن ہی نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جو نص اپنے مفہوم میں قطعی ہو اس سے اختلاف کی گنجائش تو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما کو بھی نہیں ہے تو ہماری کیا حیثیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت شیخ امن پوری صاحب کے یہ تمام جملے بہت خطرناک اور ائمہ سلف کے منہج کے بالکل مخالف ہیں۔ ائمہ اور محدثین کا مذہب تو یہ ہے کہ نصوص اصل ہیں جبکہ سلف کے اقوال اس اصل کو سمجھنے کا ایک ذریعہ اور اس حوالے سے ممد و معاون ہیں ۔ اس لیے یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ سلف کے اقوال کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ہر وہ تعبیر جس میں نصوص کی ہیبت وعظمت میں کمی آتی ہو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ کتاب وسنت کی نصوص کی تعظیم کو برقرار رکھنا درحقیقت اللہ تبارک وتعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا ہے اور ان دونوں کی تعظیم ہر تعظیم سے بلند وبالا ہے۔
جہاں شیخ صاحب کی گفتگو قابل افسوس تھی وہیں حافظ زبیر صاحب کا نقد بھی ظلم وزیادتی پہ مبنی ہے۔ کسی مسلمان کے بارے توہین رسالت یا توہین قرآن کا ناجائز الزام لگانا بہت بڑی جسارت ہے۔ شیخ امن پوری صاحب کی بات کی تاویل کی بھی جا سکتی ہے اور کرنی چاہیے بھی تاہم ان کی تعبیر سے ہم طلباء اور بہت سارے علماء کو بھی شدید اختلاف ہے بلکہ ہمیں تکلیف بھی پہنچی ہے مگر اس کا قطعا مطلب نہیں کہ ایک مسلمان عالم دین پہ توہین کے جھوٹے الزام لگائے جائیں۔ ایسے الزام سے ہزار بار اللّٰہ کی پناہ۔
افسوس کہ حافظ زبیر صاحب ایک طرف تو غامدی جیسوں کو اپنے سے بہتر کہتے اور دوسری طرف ایک مسلمان عالم دین کی ایک غلط تعبیر کی بناء پہ توہین کا الزام لگا رہے۔ یہاں ہم صرف خیر خواہی کے طور پہ حافظ زبیر صاحب کو نصیحت کریں گے کہ آپ نے جو کچھ امام بربہاری یا امام لالکائی کے بارے کہا وہ بھی ظلم وزیادتی پہ مبنی تھا۔ ائمہ اہل سنت کو تکفیری باور کروانا یہ بہت بڑا ظلم ہے اور جو کچھ آپ نے کل شیخ امن پوری صاحب کے بارے کہا یہ بھی زیادتی ہے۔ آپ کو اپنی ان غلطیوں سے اعلانیہ رجوع اور توبہ کرنی چاہیے اللّٰہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین یارب العالمین۔

حافظ حنین قدوسی

یہ بھی پڑھیں: “تغلیب الاسلام بر تہذیب الاسلام”