آج کل ہمارے ہاں تَھوک کے حساب سے اسکالرز، موٹیویشنل اسپیکرز، فلاسفرز، خطبا، واعظین، علماء موجود ہیں جن کے پیروکار بھی سینکروں اور ہزاروں میں ہیں۔ مجمعِ عام میں تقریر، ایک عالی شان اسٹیج اس پر مجمع کا شور دوسری طرف اگر کام ہو رہا ہے تو سکرین کے پردے پر ہزاروں نہیں لاکھوں فالوورز روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی شہرت پھر اس شہرت سے بڑھتا ہوا معیارِ زندگی۔ یہ سب ہمارے داعیوں کا وظیفہ ہے۔ لیکن بات سوچنے کی یہ ہے کہ وہ نتائج کہاں ہیں جو متوقع تھے؟ آج اگر کوئی مدرسہ میں پڑھنے والا طالب علم یا سکول و کالجز کے طلبا اپنے مقاصد اور منزل کی تصویر اپنے ذہن میں لاتے ہیں تو وہی crowd اور luxurious life کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔
کسی کو بھی یہ فکر نہیں کہ ماتھے کے محراب، مسجد کی چٹائیاں، شخصی و انفرادی تزکیہ و تربیت بھی کسی مرض کی دوا ہے۔ کون ہے آج جو یہ چاہتا ہو کہ میں سکرین سے ہٹ کر ملت میں گم ہو کر اشخاص و افراد پر توجہ دوں۔ میں آج اجتماعی دم کی طرح بڑے سے مجمع میں سب کو پھونک تو مار دیتا ہوں لیکن میں کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ گمنامی میں زندگی گزار دوں۔ دین کا کام بھی کر جاؤں اور کوئی میرا نام بھی نہ لے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ اجتماعی دم پھونکنا کم کر دیں اور شخصیت کی تعمیر، افراد کی تربیت اور اشخاص کے غموں کا مداوی کریں۔
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

 عبداللہ شاہد