رات اہلِ غزہ پہ کافی بھاری رہی مگر انہوں نے اسرائیل کا زمینی حملہ پسپا کرکے حساب چکتا کر دیا۔ اب تک کی شدید ترین بمباری اور مواصلاتی نظام کو تہس نہس کرنے کے بعد اسرائیلی فورسز ٹینکوں سمیت غزہ میں داخل ہوئیں، جہاں حماس کے جانبازوں نے ان کا شایانِ شان “استقبال” کیا۔ بہت سے ٹینک تباہ ہوئے۔ کچھ فوجی قیدی بنا لیے گئے. اچھا خاصا جانی نقصان اٹھانے کے بعد سانپ واپس اپنے بل کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوا۔
اسرائیل نے اس حملے کو ٹارگٹڈ ریڈ اور حماس کی دفاعی صلاحیت کو جانچنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ بہرکیف یہ ایک ناکام ترین مہم جوئی تھی۔ صہیونی فورسز پھر سے زیادہ بڑا اور منظم حملہ کریں گی، مگر کب؟ معلوم نہیں۔
اہلِ غزہ کے لیے یہ جنگ مارو یا مرجاؤ کا درجہ تو رکھتی ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ یہ اسرائیل کے مستقبل کے لیے بھی نہایت اہم ثابت ہونے والی ہے۔ صہیونی وزیر دفاع کے بقول اسرائیل کے وجود کے اگلے 75 سال اس جاری جنگ کے نتائج پر منحصر ہوں گے۔ اگر مزاحمت کار غزہ بچانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ حالیہ تاریخ کا ناقابلِ یقین کارنامہ ہوگا۔ کیونکہ نیتن یاہو نے حماس کو مٹانے کا بیان دے کر اپنا ہدف واضح کردیا ہے کہ وہ غزہ پہ قبضہ کریں گے۔ اب اگر وہ یہ ہدف حاصل نہیں کرپاتے تو یقیناً دنیا اسے اسرائیل کی ہزیمت قرار دے گی۔ خدانخواستہ اگر غزہ پہ قبضہ ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ فلسطین کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا۔
لاجواب مزاحمت جاری ہے۔ اہلِ غزہ کی زبانوں پر ایک ہی جملہ ہے: اگر جئیں گے تو اپنی سرزمین پر اور اگر مریں گے تو اپنی دھرتی پر۔ تاریخ کا نیا باب رقم ہو رہا ہے۔ مقصدیت کے لیے لازوال و بےمثال قربانیوں کی منفرد داستان لکھی جارہی ہے۔ حاشیے پہ کہیں امت کی بےحسی اور اقوامِ مغرب کے میک اپ زدہ چہروں سے غازہ اترنے کی کہانی بھی درج ہو رہی ہے۔
گہری رات کا سیاہ تاریک اندھیرا ہے۔ ناتواں چراغ اپنی لرزتی لو کی آنچ سے شبِ دیجور کا سینہ چھلنی کر رہا ہے۔ اس چراغ کو جلتے رہنا چاہیے، کیوں کہ یہ فلسطینیوں کے لہو سے روشنی پا رہا ہے.
اے تھرتھراتی لو والے جھلملاتے چراغ ! مالک تجھے ہمیشہ فروزاں رکھے۔

نواز کمال