نوجوانوں میں بڑھتے الحاد کا ذمہ دار کون
اتوار کی شام گوجرہ سے اسلام آباد سفر کے دوران ایک نوجوان ہم رکاب ہوا جو عمر میں مجھ سے سال دو سال بڑا ہی معلوم ہوتا تھا۔ ابتدائے سفر میں ہم دونوں خاموش رہے مگر پھر میں خاموشی کے بندھن توڑتے ہوئے گویا کہ بھائی جان آپ کسی یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں تو معلوم پڑا کہ ایگریکلچر کے شعبہ سے متعلق بی ایس مکمل کر چکے ہیں اور ابھی ایم ایس میں داخلے کے خواہاں ہیں میں نے اپنے بارے میں بھی بتایا کہ تقابل ادیان کا طالب علم ہوں۔ موصوف نے اس موضوع میں خاصی دلچسپی کا اظہار کیا اور مختلف مذاہب کے متعلق کچھ سوالات پوچھنے لگے۔ وہ اس موضوع کی مبادیات سے شناسائی رکھتے تھے اور پہلا سوال ہی Dead Sea Scrolls کے بارے میں پوچھا۔ اس کے علاوہ Free Will اور Problem of Evil جیسے مسائل بھی زیر بحث رہے۔
دوران گفتگو بتانے لگے کہ کچھ عرصہ قبل وہ الحاد کا شکار ہو چکے تھے مگر اب اس سے پیچھے ہٹ چکے ہیں تاہم ابھی بھی عملی مسلمان نہیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ سفر الحاد کا سبب کیا بنا اور واپسی کے لئے ٹرننگ پوائنٹ کیا ثابت ہوا؟ اس پر مزید لمبی چوڑی بحث نے جنم لیا۔
معاشرہ ثقافتی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے مراحل تیزی سے طے کر رہا ہے، اقتصادی اور سیاسی انقلابات جنم لے رہے ہیں۔ اس کے برعکس جنسی آزادی، سست روی، علم کی کمی اور فکری ضعف ہمیں الحاد کی طرف لے جا رہا ہے۔ دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ میری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اگر اللہ کی رحمت غضب پر حاوی ہے تو اہل نار کی کثرت کیوں ہو گی؟ نیک لوگ دنیا میں غالب کیوں نہیں آرہے؟ بالآخر اس طرح کے شکوک و شبہات انکار خدا کی حد تک لا کھڑا کرتے ہیں اور الحاد کے دامن میں تو تشکیک کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس نے بتایا کہ ایک صبح وہ سعودی عرب میں فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بعد مسجد میں بیٹھا تھا کہ اچانک سے دل میں وسوسے نے جنم لیا کہ اگر خدا حقیقت میں نہ ہوا تو میری یہ محنت ضائع ہو جائے گی بس پھر جلدی سے نماز مکمل کی اور بغیر اذکار و دعا کے مسجد سے نکل آیا اور الحادی فکر کا شکار ہو گیا۔
مغرب کی ترقی اور مادیت سے یہ بات نوجوان کے دل میں بیٹھ گئی ہے کہ انہوں نے مذہب کو پس پشت ڈال کر ترقی کی ہے لہذا اگر وہ بھی دنیا میں بلند علم اور کامیاب شخص بننا چاہتا ہے تو اسے مذہب کے گورکھ دندے سے جان چھڑانا ہو گی۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
لوگوں کو دین سے دور کرنے میں کچھ نا کچھ بعض اہل دین کا رویہ بھی شامل ہے جو دین کا وہ عکس پیش کرتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اگر کوئی ان پر مدلل تنقید کرے یا اپنے شبہات سامنے رکھ دے تو معقول جواب دینے کی بجائے فسق و کفر کے فتوے جاری کر دیتے ہیں۔
ایک بڑا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائی مذہب کی مسخ شدہ تعلیمات اور چرچ کے ظالمانہ رویہ کے ردعمل کے طور پر جدید الحاد نے یورپ میں جنم لیا۔ الحاد کے حامی اپنے اس تلخ تجربے پر ہی دوسرے ادیان کو قیاس کرتے ہوئے سرے سے مذہب اور خدا کا انکار کر بیٹھے مگر اسلام کا معاملہ دیگر ادیان سے یکسر مختلف ہے جو ایک مکمل ضابطہ حیات اور جامع دین ہے۔ اس لئے محاسن اسلام سے آگاہی کو عام کرنا بھی الحاد کے تریاق کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ مگر ایک داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے احکامات کو واقعی عملی معاملات سے منطبق کر کے عوام کے سامنے پیش کرے اور نت نئے مسائل میں شریعت کے عالمگیر نور کی روشنی میں رہنمائی باہم پہنچائے۔
ہماری گفتگو کا اختتام اس بات پر ہوا کہ دین لوگوں کی گفتار و کردار اور مشاہدات و تجربات کا نام نہیں بلکہ قرآن و سنت کا نام ہے جس میں ہر ایک شخص کے لئے کامل رہنمائی موجود ہے۔
عبدالرحمن یونس