ہم جب طالب علم تھے تو ہمارے اساتذہ کے درمیان ایک نزاع چل رہا تھا ، وہ یہ تھا کہ کیا عورت اسلامی نظام میں پارلیمنٹ کارکن بن سکتی ہے یانہیں بن سکتی ؟ ہمارے مشائخِ ثلاثہ  (مولانا محمدعنایت الرحمن، مولانا گوھررحمن ، مولانا عبدالرحیم چترالی صان اللہ قدرھم ) ، دورہِ تفسیر میں سب اس مسئلہ پراپنی اپنی آراء پیش فرماتے تھے ، شیخینِ کریمین یعنی ہمارے شیخِ اول(1) مولانا محمدعنایت الرحمن صاحب (۲) اور شیخِ ثانی مولانا گوھررحمن صاحب صان اللہ قدرھما اس کے جواز کے حق میں تھے، جبکہ (3) مولاناعبدالرحیم چترالی صاحب ممانعت کے قائل تھے۔

شیخین کریمین بالعموم اس کے لیے تین دلائل دیتے تھے۔ (1) ایک آیتِ قرانی، وان آرادا فصالا عن تشاور منھما (البقرہ ) اور (2) دوسری آیتِ قرانی، ان خیر من استئجرت القوی الامین (القصص) اور (3)تیسری بخاری کی وہ صلح حدیبیہ والی روایت جس میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ علیہ وسلم کو سرمنڈوا نے کا مشورہ دیاتھا۔ مولانا چترالی مرحوم پہلی دلیل اورآخری دلیل کو میاں بیوی کا مسئلہ قراردیتے ہیں اور فرماتے کہ اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ دوسری دلیل کو بیٹی اورباپ کا مسئلہ جانتے اورقرار دیتےتھے ، اورفرماتے تھے: کہ ان آیات کا پارلیمنٹ کی رکنیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب جب ہمارے شیوخ اس دنیا میں نہیں رہے تو ہمیں خیال آیا کہ اس مسئلہ میں تو قواعد کی روسے نزاع ممکن ہی نہیں  آخر وہ کس طرح اس میں نزاع  کرتے تھے ؟ کیونکہ جمھور علماء تفسیر کے مسلمہ قواعد میں سے ایک قاعدہ “الاصل فی العبادات الحظر الا اذا ثبت امربھا والاصل فی العادات الاباحة الا اذا ثبت الحظر” یہ ہے ، لھذا خواتین کا پارلیمنٹ کے رکن ھونے کا مسئلہ سرے سے محتاجِ دلیل ہے نہیں ، کیونکہ یہ کوئی عبادتِ محضہ کا مسئلہ نہیں ہے۔

معاملات میں شامل مسئلہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین رکن نہیں ہوتی تھیں ، جوابا عرض ہے کہ کسی شے اور معاملہ کا موجود نہ یونا اسکے عدمِ جواز ھونے کی دلیل نہیں ہے۔ پھر خلفاء راشدین کے دور کے متعلق یہ بات سب کو معلوم ھے کہ وہ ہرشخص کاحق اس کے گھر تک پہنچاتے تھے ، اب اگر ایسی صورت میں عورت پارلیمنٹ میں رکن ھونے کی ضرورت محسوس نہ کریں تب یہ بہت معقول ہے۔ مگر اس سے ہمارے دور کےلیے استدلال کرنا نادرست ہے کیونکہ اب اس دور مردوں کو بھی اپنے حقوق نہیں ملتے تابہ خواتین چہ رسد ؟ تو اس سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ اب اس ظالمانہ دور میں اپنے حقوق کے لیے جدوجھد کو چھوڑدیں گی اور مرد عوام پر اپنے حق کے لیے اعتماد کرلیں گی؟

یہ بات کوئی معقول نہیں ہے، مولانا مودودی تو عورت کے لیے پارلیمنٹ کی رکنیت جائز نہیں قرار دیتے ہیں، بعض اہل علم لوگ ان کے اس فتوی کی توجیہ میں کہتے ہیں کہ انھوں نے اختلاط کے خوف سے یہ فتوی دیا ہے  مگر ہمارے نزدیک یہ فتوی بھی نادرست ہے اور کچھ اہل علم کی یہ توجیہ بھی فاسد ہے ، کیونکہ اگر اختلاط کا خوف ہے تب تو مدرسہ اورسکول جانے پربھی پابندی عائد کرنی چاہیے ، مگر مولانا مودودی نے ایسی کوئی پابندی سکول مدرسہ اورکالج و یونیورسٹی پرعائد نہیں کی ہے ، ہمارے شیخِ ثانی مولانا گوھررحمن صاحب نے ،، “عورت کی سربراہی قران وسنت کی روشنی میں” نامی کتاب میں عورت کی سربراہی ناجائز قرار دی ہے اس کے لیے انہوں نے آحادیث کے ساتھ قرآنی آیات کابھی سہارا لیاہے۔ مگر ان کی عادت ہے کہ بالعموم آیات وآحادیث سے زبردستی اپنا مفھوم کشید کرتے ہیں۔

اس مقصود کے لیے انہوں نے قرانی آیت سے بھی استدلال کیا ہے ، مثلا  یہ آیت بطورِ دلیل پیش کی ہے کہ  “الرجال قوامون علی النساء” حالانکہ یہ استدلال بوجوہ محلِ نظر ہے (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ آیت اپنے سیاق وسباق میں بیوی اورمیاں کے متعلق واردہے اورتفسیری قواعد میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ کسی آیت کو ایک نوع سے نکال کر دوسری نوع میں داخل نہیں کیاجاسکتاہے۔  دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ بعض مفسرین نے قوام کا ترجمہ  ‘حاکم’ سے بھی کیاہے مگر لغتِ عربی میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ، ہرمفسر ماھرِ لغت نہیں ہوتا اورنہ اس کی ہربات حجت ہوتی ہے ورنہ قران میں وارد “قوامین”  لفظ کا پھر ترجمہ ہوگا۔ “تم سب حاکم بنو” ؟

تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر “قوام” لفظ کو عام بمعنی  “حاکم” قراردیا جائے تو پھر اس کامطلب ہوا کہ “حاکم مرد” اپنی والدہ پربھی حاکم ہوگا ، حالانکہ اس بات کے مولانا گوھر رحمن بھی قائل نہیں ہونگے ، وہ بھی خود کو ماں کا مطیع اورغلام سمجھتے ہونگے ، ہمارا مقصود ان کے استدلال کاجائزہ لینا تھا۔ مسئلہ پر کلام نہیں تھا ، اس مسئلہ کےلیے یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اس لیے محض تنبیھات سے کام چلایا ہے ، تاکہ نوجوان طالب ٹھوکر کھانے سے بچ جائیں۔

واصل واسطی