سوال (453)
نزولی اعتبار سے قرآن کی پہلی مکمل سورت کونسی نازل ہوئی ہے ؟
جواب
“نزول کے اعتبار سے سب سے پہلی آیت کی پہچان”
جب کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا اور آپ نے اسے سیکھ لیا ، تو انسان کے دل پر یہ تصور ضرور آتا ہے کہ یہ اس چیز کی طرح ہے جیسے کوئی چیز اوپر سے نیچے کو آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی قدر و منزلت اور رفعت وعظمت بہت زیادہ اور تعلیمات ایسی بلند ہیں ، جن سے انسانی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے، اس سے زمین و آسمان میں ایک رابطہ بن جاتا ہے اور دنیا وآخرت کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
تشریع اسلامی کی تاریخ کی معرفت کا سب سے پہلا مصدر قرآن کریم ہی ہے، جو محقق کو ایسی تصویر دکھاتا ہے جس میں احکام بتدریج نازل ہوئے اور یہ بھی وضاحت کرتا ہے کہ یہ احکام جن حالات میں نازل ہوئے ان کے لیے بہت مناسب تھے اور ان میں پہلے اور بعد والے نزول میں کوئی تعارض نہیں۔
اس منہج سے قرآن کی پہلے اور آخر میں نازل ہونے والی آیات کا پتا چلتا ہے، کیوں کہ یہ پہلی اور آخری آیات اسلامی آداب مثلاً کھانے ، پینے اور لڑائی وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔ کون سی آیات پہلے نازل ہوئیں کون سی بعد میں ؟ اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، ہم انہیں اجمالی طور پر بیان کرنے کے بعد ان میں راحج کو قول کو بیان کریں گے۔
سب سے پہلی وحی:
پہلا قول: صحیح ترین قول کے مطابق سب سے پہلے سورۃ العلق کی آیات :
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ.﴾ [العلق: ۱۔۵]
سب سے پہلے یہ آیات نازل ہوئیں تھیں ۔ اس کی دلیل صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی، آپ نیند میں جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح روشن کی طرح واضح ہو جاتا، پھر آپ تنہائی پسند ہوگئے ، اپنی خوراک لے کر غارِ حرا میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں بسر کر دیتے اور جب خوراک ختم ہو جاتی تو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور کھانے پینے کا سامان لے کر پھر چلے جاتے، آپ غار میں ہی تھے کہ آپ کے پاس ’’حق‘‘ آیا، ایک فرشتہ آپ کے پاس آکر کہنے لگا: ’’پڑھیں ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے کہا: ’’میں پڑھنے والا نہیں ۔‘‘ تو اس نے مجھے پکڑ کر اتنا بھینچا کہ اسے میری وجہ سے مشقت اٹھانا پڑی، پھر اس نے مجھے چھوڑ کر کہا: ’’پڑھیں ‘‘ میں نے کہا: ’’میں پڑھنے والا نہیں تو اس نے دوسری مرتبہ مجھے پکڑ کر بھینچا کہ اسے مشقت اٹھانا پڑی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا: ’’پڑھیں ‘‘ میں نے کہا: میں پڑھنے والا نہیں ، تو اس نے تیسری دفعہ مجھے بھینچا یہاں تک کہ اسے مشقت اٹھانا پڑی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑا اور کہا:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ. الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ.﴾ [العلق: ۱۔۵]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات لے کر واپس آئے تو آپ کے شانے کانپ رہے تھے۔
دوسرا قول : یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سورت المدثر نازل ہوئی تھی۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ نازل ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا:﴿یاَیهاالْمُدَّثِّرُ.﴾ [المدثر: ۱]
میں نے کہا: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ نہیں ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: میں وہی بتا رہا ہوں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، آپ نے فرمایا: میں حراء میں عبادت کرتا رہا، چناں چہ جب میں نے عبادت پوری کر لی تو میں نیچے اتر کر وادی کے نشیب میں آگیا، میں نے اپنے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں دیکھا، پھر میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اچانک مجھے وہ (یعنی جبرئیل علیہ السلام ) دکھائی دیے، مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی، میں خدیجہ( رضی اللہ عنہا ) کے پاس آیا، انہیں حکم دیا تو انہوں نے مجھے چادر میں لپیٹ دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے ﴿یاَيها الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنذِرْ.﴾ نازل فرمائی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس میں مکمل سورت کے متعلق دریافت کیا گیا تھا تو جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اقراء سے پہلے سورۃ المدثر مکمل نازل ہوئی تھی، جب کہ سب سے پہلے سورۃ العلق کا ابتدائی حصہ ہی نازل ہوا تھا۔
اس کی تائید صحیحین کی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے، اس میں بھی ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فترۃِ وحی کے دور کے بارے فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، اچانک دیکھا تو وہی فرشتہ تھا جو حراء میں میرے پاس آیا تھا، وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر براجمان تھا۔ چناں چہ میں (گھر) لوٹا، میں نے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے مجھے لپیٹ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ نازل کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حراء والے پہلے واقعہ کے بعد کا ہے، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ فترۃِ وحی کے بعد سب سے پہلے سورۃ المدثر نازل ہوئی تھی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے جو اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو مقدم کیا جائے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ سب سے پہلے اقرا کی وحی نازل ہوئی، اس کے بعد مکمل طور پر نازل ہونے والی یا فترۃِ وحی کے بعد نازل ہونے والی سورت ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ ہے۔
یا رسالت کے لیے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ اور نبوت کے لیے ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ کا نزول ہوا۔
تیسرا قول: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی ، شاید اس سے مراد یہ ہو کہ مکمل طور پر جو سورت سب سے پہلے نازل ہوئی ۔
چوتھا قول: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہر سورت سے پہلے نازل ہوئی، اس کی دلیل مرسل روایات ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی وجہ سے پہلا قول ہی راحج، قوی اور مشہور ہے۔
امام زرکشی اپنی کتاب ’’البرہان‘‘ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایات درج کرنے کے بعد کہتے ہیں :
بعض علماء نے ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے متعلق جو قصہ سنا ہے وہ اس کا آخری حصہ ہے۔ انہوں نے اس کا پہلا حصہ نہیں سنا، اسی لیے انہیں یہ وہم ہوا کہ یہی سب سے پہلے نازل ہوئی تھی ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ سورت فترۃِ وحی اور اقراء کی آیات کے بعد نازل ہوئی تھی، کیوں کہ صحیح بخاری ومسلم میں ہے :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فترۃِ وحی کے دور کے بارے بیان فرماتے ہوئے فرمایا: ’’میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حراء میں میرے پاس آیا تھا، آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر براجمان تھا، میں اسے دیکھ کر گھبرا گیا، چناں چہ میں گھر آیا، میں نے کہا: مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو، پھر اللہ تعالیٰ نے وحی اتاری :
﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنذِرْ.﴾
اس حدیث میں اس فرشتے کے بارے بتایا گیا ہے جو اس سے پہلے حراء میں آپ کے پاس آ چکا تھا، جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بیان ہے کہ اقراء کا نزول غارِ حراء میں ہوا تھا، یہ پہلی وحی تھی، اور اس کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا تھا اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ کے بعد وحی مسلسل آنے لگی۔ لہٰذا اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾کی وحی پہلے اور ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ کی بعد میں نازل ہوئی ہے۔
ابن حبان رحمہ اللہ بھی اپنی صحیح میں یہی کہتے ہیں کہ ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ۔ پہلی وحی غارِ حرا میں ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ نازل ہوئی، پھر جب آپ علیہ السلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور انہوں نے آپ پر ٹھنڈا پانی بہایا تو اللہ تعالیٰ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ نازل فرمائی۔ ظاہر بھی یہی ہے کہ جب آپ پر ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ نازل ہوئی تو آپ نے گھر آکر چادر اوڑھ لی تو ﴿یاَیها الْمُدَّثِّرُ.﴾ نازل ہوئی۔ جو یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی، اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو ابو اسحاق کے طریق سے ابو میسرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آواز سنتے تو دوڑنے لگتے اور آپ کو فرشتے کا نزول اور یہ کہنا کہ آپ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.﴾ پڑھیں یاد آجاتا۔
قاضی ابوبکر باقلانی اپنی کتاب ’’الانتصار‘‘ میں کہتے ہیں ، یہ روایت منقطع ہے اور صحیح یہ ہے کہ سب سے پہلے ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ نازل ہوئی اور اس کے بعد ﴿یاَیها الْمُدَّثِّرُ.﴾ والا قول ہے۔
ان تمام اقوال میں یہی تطبیق دی جاتی ہے کہ سب سے پہلے سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ، تبلیغ کے احکام میں سب سے پہلے
﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ اتری، جب کہ سورتوں میں سب سے پہلے فاتحہ نازل ہوئی۔
یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے:
((اَوَّلُ ما یُحَاسَبُ به العَبْدُ الصَّلَاۃُ۔))
’’سب سے پہلے بندے سے نماز کے بارے سوال ہو گا۔‘‘
اسے سیوطی نے جامع الصغیر میں طبرانی سے نقل کیا ہے۔
جب کہ دوسری حدیث میں ہے:
((اَوَّلُ مَا یُقْضٰی فِیه الدِّمَاء۔))
رواہ البخاری فی کتاب الدیات
’’وَلَفْظهُ اَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاء‘‘
سب سے پہلے خون کے بارے فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
ان دونوں احادیث میں اس طرح تطبیق دی گئی کہ بندوں کے درمیان مظالم میں سب سے پہلے ’’خون‘‘ اور بدنی فرائض میں سب سے پہلے ’’نماز‘‘ کا سوال ہوگا۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسالت کے لیے سب سے پہلے ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ اور نبوت کے لیے ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ نازل ہوئی۔ علماء کہتے ہیں : ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.﴾ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے ،کیوں کہ جب فرشتے کے ذریعے کسی خاص ذمہ داری کے لیے کسی خاص شخص کی طرف وحی کی جائے تو اسے نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کہ ﴿یاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ.﴾ سے رسالت پر دلالت ہے، کیوں کہ جب فرشتے کے ذریعے کسی عام ذمہ داری کے لیے کسی خاص شخص کی طرف وحی کی جائے تو اسے رسالت کہا جاتا ہے۔ [انظرالبرہان فی علوم القرآن للزرکشی بتحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم ج ۱، ص ۲۰۶ ومابعد ھا]
[مباحث فی علوم القرآن]
فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ