سوال (1346)

کبھی کبھار میں ظہر کے ساتھ ہی عصر کی نماز پڑھ لیتا ہوں تاکہ لمبی نیند سو سکوں، اسی طرح سے مغرب کی نماز بھی عشاء کے ساتھ ملا لیتا ہوں ۔ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

بغیر شرعی عذر( مرض ، سفر۔۔۔۔) کے روٹین کے ساتھ اس طرح نمازیں جمع کرنا ٹھیک نہیں لمبی نیند سونا تو کوئی عذر نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث حافظ اشرف شاہین حفظہ اللہ

سائل :
شیخ محترم جو مسلم شریف میں حدیث آتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر بارش بغیر سردی بغیر آندھی کے نمازیں جمع کی تھیں، اس کا کیا مطلب ہے ؟
جواب :
حدیث میں بھی جو ثابت ہے وہ بھی روٹین نہیں ہے ، بلکہ نادرا ایک دفعہ ہی آپ نے ایسا کیا ہے ، اس لیے اس عمل کو مستقل عادت یا سہل پسندی کے حوالے نہ کیا جائے گا ۔

فضیلۃ الباحث قاری عبد القدوس حفظہ اللہ

اس حدیث میں یہ ہے کہ بلا عذر پڑھی تھیں؟اگر اس طرح ہی کھلی اجازت دے دی جائے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب لیں گے “ان الصلوة كانت على المؤمنين کتاب موقوتا”

فضیلۃ الباحث حافظ اشرف شاہین حفظہ اللہ

بغیر خوف بغیر سفر یہ حدیث میں الفاظ موجود ہیں اور دوسری سند میں تفصیل بھی موجود ہے غالباً ابن عباس نے فرمایا کہ اس لیے ایسا کیا تاکہ اپنی امت کو تنگی اور دشواری میں نہ ڈالا جائے اور جب بارش بھی نہیں سردی بھی نہیں آندھی طوفان بھی نہیں خوف بھی نہیں اور سفر بھی نہیں ، تو کونسا عذر باقی تھا جو نمازیں اکٹھی کی گئیں اور اوپر سوال کرنے والے نے بھی کبھی کبھار کا کہا ہے نہ کہ روزانہ کا معمول بیان کیا گیا ہے ۔

فضیلۃ الباحث حسین سہیل حفظہ اللہ

ابن عباس کے یہی الفاظ کہ امت پر حرج نہ ہو اس چیز کی دلیل ہے کہ حرج کی صورت میں نمازیں جمع ہو سکتیں ہیں ، بلاحرج یا عذر نہیں ، ابن عباس کی روایت میں درس علم کو حرج کے باب میں معتبر سمجھا گیا ہے۔
اصل حکم یہ ہے کہ نماز مومنوں پر مقررہ وقت پر مقرر کی گئی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ “. وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ، وَهُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ لِلْمَرِيضِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ.

یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کیا البتہ اس کے تحت آئمہ کے مذاھب کا بیان ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ