سوال

آج کل آن لائن کام کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ہر بندہ انٹرنیٹ سے جڑی دنیا سے مالی و معلوماتی استفادہ حاصل کرنے کی دوڑ میں ہے اور اسی چکر میں جائز و ناجائز کی تمیز کرنا بھول گیا ہے۔ کچھ اشکالات و ابہام ایسے ہیں کہ انہیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔
علماء سے اس بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل کچھ کمپنیز(ان کمپنیز کا آفس، پتا، مالک، سٹاف نیز کسی قسم کا اتا پتا مخفی ہوتا ہے) ایسی ہیں جو کہ ایسے پیکچز متعارف کرواتی ہیں ،جن کے لیے ابتدائی طور پر ہم سو ڈالر سے لے کر تین سو، پانچ سو اور سات سو ڈالر تک کی رقم پیشگی ادا کرتے ہیں۔ جسے وہ کمپنی رجسٹریشن یا سبسکرپشن فیس کہتی ہیں۔ اور یہ رقم کمپنی ایک مخصوص مدت( دو ماہ) کے بعد واپس کر دیتی ہے۔ اس فیس کے عوض کمپنی ہمیں ایک سروس فراہم کرتی ہے، کہ ہم نے بالفرض سو ڈالر کی رجسٹریشن لی تو اس کے عوض ہمیں روزانہ دس ٹاسکس کرنے ہوتے ہیں، جو کہ مختلف اشتہارات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر ان پر کلک کرنے سے ہمیں روزانہ چار ڈالرز ملتے ہیں ۔ جو کہ ماہانہ ایک سو بیس ڈالرز بنتے ہیں۔ اسی طرح جس نے پیشگی تین سو ڈالر ادا کیے ہیں ،ان کو روزانہ پندرہ ٹاسکس دئیے جاتے ہیں جن کو مکمل کرنے پر ہمیں روزانہ کے بارہ ڈالرز یعنی تین سو ساٹھ ڈالرز ماہانہ ملتے ہیں۔
اب اس کے ساتھ ہی کمپنی ایک اور پیشکش کرتی ہے کہ اگر آپ اپنے ساتھ کسی اور دوست کو ملاتے ہیں تو اس کے پانچ ڈالر کمپنی ہمیں دے گی۔ اور جو وہ کام کرے گا اس کا اعشاریہ چار فیصد ہمیں بونس ملے گا۔ اسی طرح اگر وہ دوست آگے کسی اور دوست کو اپنے ساتھ ملائے گا، تو اس کا ہمیں اعشاریہ دو فیصد بونس ملتا رہے گا۔ اسی طرح جیسے جیسے یہ نیٹ ورک بڑھتا جائے گا ہمارا بونس بتدریج بڑھتا جائے گا۔
مزید برآں یہ کمپنیز سروس کے دوران مختلف انداز میں ہم سے چارجز وصول کرتی ہیں، جسے وہ سیکیورٹی چارجز کہتی ہے۔ جو ہم ادا نہ کریں تو ہمارا اکاونٹ معطل کر دیا جاتا ہے ،اور ہمیں کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ چارجز ادا کر دیتے ہیں تو ہمیں وہ رقم کچھ بونس کے ساتھ واپس کر دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کمپنیز جدید ٹیکنالوجی جسے بلاک چین ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ اور بلاک چین نیٹ ورک کرپٹو کرنسی پر کام کرتا ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ابھی تک دنیا میں کرپٹو کرنسی کا وجود نہیں ہے۔ اب یہ کمپنی ہمیں ادائیگی کے لیے ایک ڈیجیٹل ایکسچینج جو کہ بائنینس نامی ایپ کے ذریعے کام کرتی ہے۔ اس ایکسچینج میں کرپٹو کی صورت میں پیسے بھیجتی ہے، جو کہ ہمیں اس ڈیجیٹل ایکسچینج کے بروکرز ہمارے کرپٹو خرید کر ہمیں لوکل کرنسی میں ادائیگی کر دیتے ہیں ۔ اب اس ساری صورتحال میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں :
سوال نمبر ایک: کیا ایسی کمپنی جس کا بنیادی ڈھانچہ مخفی ہو اور اس کے کاروبار کی تفصیلات ہمیں معلوم نہ ہوں، اس میں رقم سرمایہ پر لگانا، اور اس سے نفع حاصل کرنا کیسا ہے؟
سوال نمبر دو:جو اس سلسلہ میں ایک نیٹ ورک وجود میں آتا ہے اور ہمیں اضافی بونس ملتا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بقول یہ ان کی اس محنت کا معاوضہ ہے جو وہ لوگوں کو کمپنی پر سرمایہ لگانے پر قائل کرنے پراور ان کا اکاونٹ بنانے پر ملتا ہے۔ تو کیا یہ بونس سود کے زمرے میں آتا ہے؟ آیا یہ نیٹ ورکنگ کرنا درست ہے یا نہیں۔ کیا ایسی کمپنیز ملٹی لیول مارکیٹنگ یا پیرامڈ سکیمز کے زمرے میں آتی ہیں؟ اور مجموعی طور پر اس طرح کے کاروبار کے ذریعےکمائی کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے شریعت کیا کہتی ہے؟
سوال نمبر تین:اگر کوئی شخص نیٹ ورک نہیں بناتا یعنی صرف روزانہ کے ٹاسکس پورے کرتا ہے۔ اور مزید کسی دوسرے کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتا تو کیا پھر بھی اس کا اس کمپنی سے جڑے رہنا ٹھیک ہے؟
سوال نمبر چار: ڈیجیٹل ایکسچینج کے ذریعے کرپٹو کرنسی کا لین دین اور پھر اس سے لوکل کرنسی میں تبادلہ کے بارے علماء کا کیا موقف ہے۔
یہ چند سوالات ہیں جن کے بارے علماء سے شریعت اور جدید ریسرچ کی روشنی میں راہنمائی درکار ہے۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

آپ کے تمام سوالات کے جوابات حسبِ ترتیب نمبر وار پیش کیے جاتے ہیں:
1. ایسے کاروبار میں سرمایہ لگانا درست نہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کاروبار حرام چیزوں پر مشتمل ہو، یا اس میں ایسی شرائط ہوں، جو کہ ناجائز ہوں۔
2. جی بالکل اس کو ’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ یا ’ملٹی لیول مارکیٹنگ‘ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اور اس میں جوے، سود، مالی استحصال ، دھوکہ دہی وغیرہ کئی ایک قباحتیں موجود ہیں۔ ( تفصیل کے لیے فتوی نمبر: 322 ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)
3. نیٹ ورک چین بنانا، تو اس کی خرابیوں میں سے ایک ہے، اگر اس میں یہ نہ بھی ہو، تو اس میں کاروبار کا واضح نہ ہونا، سبسکرپشن کے نام پر ایڈوانس پیسے وصول کرنا، اور اس پر نفع دینا وغیرہ ب، بقیہ خرابیاں بدستور موجود رہیں گی، لہذا یہ کاروبار پھر بھی درست نہیں۔
4. ورچوئل یا بٹ کوئن کرنسیاں بہت کم عرصے میں شرِمستطیر کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی ہیں، حالانکہ کئی ایک ماہرین کے بقول ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ محض وہم و خیال ہے۔ جبکہ بعض دیگر لوگ اس کو درست اور جائز قرار دیتے ہیں۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم ہمارے لیے ان کی حقیقت واضح نہیں، لہذا اس مشتبہ چیز کے استعمال، یا اس کے ذریعے لین دین اور کاروبار کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ اعلم وآخر

دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ