سوال (2135)

نكاح شغار كی صحیح تعريف مطلوب ہے۔

جواب

رشتے کے بدلے میں رشتہ لینا دینا اور دونوں کے لیے مہر مقرر نہ کرنا شغار ہوتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

نکاح شغار اسے کہتے ہیں کہ دونوں طرف رشتہ بغیر حق مہر کے مقرر کیا جائے، یعنی تم مجھے بیٹی کا رشتہ دو میں تمہیں دے دیتا ہوں، لیکن حق مہر مقرر نہیں ہوگا یہ نکاح شغار ہے، ایسے نکاح کی ممانعت ہے اور اس کو ہی سلف صالحین نے شغار کہا ہے، اب ہم کبار سلف صالحین سے اس کی تعریف و معنی بیان کرتے ہیں۔
کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ؛ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار. ﻭ الشغار ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺝ اﻟﺮﺟﻞ اﺑﻨﺘﻪ، ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺟﻪ اﻵﺧﺮ اﺑﻨﺘﻪ. ﻟﻴﺲ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺻﺪاﻕ
[موطا امام مالک:3/ 766 ، 1958 صحیح]

سیدنا عبد الله بن عمر رضى الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے
راوی حدیث امام نافع نے کہا: اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کرے گا اور دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہو

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار ﻭالشغار: ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺝ اﻟﺮﺟﻞ اﺑﻨﺘﻪ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺟﻪ اﻵﺧﺮ اﺑﻨﺘﻪ ﻭﻟﻴﺲ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺻﺪاﻕ
[مسند الشافعی: ص: 253 صحیح]

اس کا ترجمہ بھی وہی ہے

عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺛﺎﺑﺖ، ﻭﺃﺑﺎﻥ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﺷﻐﺎﺭ ﻓﻲ اﻹﺳﻼﻡ، ﻭالشغار ﺃﻥ ﻳﺒﺪﻝ اﻟﺮﺟﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﺧﺘﻪ ﺑﺄﺧﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاق.
[مصنف عبد الرزاق: 10443 ماقبل کے ساتھ صحيح ہے]

سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اسلام میں نکاح شغار نہیں ہے، راوی حدیث بیان کرتے ہیں شغار یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بہن سے بغیر حق مہر کے رشتہ طے پا جائے۔

عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺛﺎﺑﺖ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻗﺎﻝ: الشغار ﺃﻥ ﻳﺒﺪﻝ اﻟﺮﺟﻞ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﺧﺘﻪ ﺑﺄﺧﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ
[مصنف عبد الرزاق: 10438 ماقبل کے ساتھ صحیح ہے]

معمر عن ثابت روایت پر اگرچہ کلام ہے مگر اس تعریف و معنی کی تائید دوسری تصریحات سے ہوتی ہے۔

ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﻗﺎﻝ: الشغار ﺃﻥ ﻳﻨﻜﺢ ﻫﺬا ﻫﺬا، ﻭﻫﺬا ﻫﺬا، ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ ﺇﻻ ﺫﻟﻚ
[مصنف عبد الرزاق: 10439 سنده صحيح]

امام عطاء بن ابی رباح رحمه الله تعالى بھی یہی تعریف کرتے ہیں

عبد الرزاق ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ ﻗﺎﻝ: ﺳﺌﻞ ﻋﻄﺎء ﻋﻦ ﺭﺟﻞ ﺃﻧﻜﺢ ﻛﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﺃﺧﺘﻪ ﺑﺄﻥ ﻳﺠﻬﺰ ﻛﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺑﺠﻬﺎﺯ ﻳﺴﻴﺮ، ﻟﻮ ﺷﺎء ﺃﺧﺬ ﻟﻬﺎ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻗﺎﻝ: ﻻ،ﻧﻬﻲ ﻋﻦ الشغار، ﻗﻠﺖ: ﺇﻧﻪ ﻗﺪ ﺃﺻﺪﻗﺎ ﻛﻼﻫﻤﺎ ﻗﺎﻝ: ﻻ، ﻗﺪ ﺃﺭﺧﺺ ﻛﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﻋﻠﻰ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﻣﻦ ﺃﺟﻞ ﻧﻔﺴﻪ
[مصنف عبد الرزاق: 10440 سنده صحيح]
عبد الرزاق ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ ﻟﻌﻄﺎء: ﻳﻨﻜﺢ ﻫﺬا اﺑﻨﺘﻪ ﺑﻜﺮا ﺑﺼﺪاﻕ، ﻭﻛﻼﻫﻤﺎ ﻳﺮﺧﺺ ﻋﻠﻰ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﻣﻦ ﺃﺟﻞ ﻧﻔﺴﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا ﺳﻤﻴﺎ ﺻﺪاﻗﺎ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ، ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻝ: ﺃﺟﻬﺰ ﻭﺗﺠﻬﺰ ﻓﻼ، ﺫﻟﻚ الشغار ، ﻗﻠﺖ: ﻓﺈﻥ ﻓﻮﺽ ﻫﺬا، ﻭﻓﻮﺽ ﻫﺬا ﻗﺎﻝ: ﻻ
[مصنف عبد الرزاق: 10441 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ اﺑﻦ ﻧﻤﻴﺮ، ﻭﺃﺑﻮ ﺃﺳﺎﻣﺔ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺰﻧﺎﺩ، ﻋﻦ اﻷﻋﺮﺝ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻦ الشغار. ﻭﺯاﺩ اﺑﻦ ﻧﻤﻴﺮ: الشغار ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﺮﺟﻞ: ﺯﻭﺟﻨﻲ اﺑﻨﺘﻚ ﺣﺘﻰ ﺃﺯﻭﺟﻚ اﺑﻨﺘﻲ ﺃﻭ ﺯﻭﺟﻨﻲ ﺃﺧﺘﻚ ﺣﺘﻰ ﺃﺯﻭﺟﻚ ﺃﺧﺘﻲ
[مصنف ابن أبي شيبة: 17501 صحيح]

امام ابن نمیر رحمه الله تعالى بھی پہلوں کی طرح شغار کا معنی بیان کر رہے ہیں

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻷﻋﻠﻰ، ﻋﻦ ﺳﻮﻳﺪ ﺑﻦ ﻏﻔﻠﺔ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻧﻮا ﻳﻜﺮﻫﻮﻥ الشغار، ﻭالشغار: اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺰﻭﺝ اﻟﺮﺟﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺟﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﻣﻬﺮ
[مصنف ابن أبي شيبة: 17504 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ” ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار ﻗﺎﻝ ﻣﺎﻟﻚ: والشغار ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺃﻧﻜﺤﻨﻲ اﺑﻨﺘﻚ ﻭﺃﻧﻜﺤﻚ اﺑﻨﺘﻲ
[مسند أحمد بن حنبل: 5289 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻧﻤﻴﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺰﻧﺎﺩ، ﻋﻦ اﻷﻋﺮﺝ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ” ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻦ الشغار والشغار: ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﺮﺟﻞ ﻟﻠﺮﺟﻞ: ﺯﻭﺟﻨﻲ اﺑﻨﺘﻚ ﻭﺃﺯﻭﺟﻚ اﺑﻨﺘﻲ، ﺃﻭ ﺯﻭﺟﻨﻲ ﺃﺧﺘﻚ ﻭﺃﺯﻭﺟﻚ ﺃﺧﺘﻲ
[مسند أحمد بن حنبل: 10439 سنده صحيح]

یہی شغار کی تعریف ومعنی ابن نمیر نے صحيح مسلم: 1416 میں بیان کیا ہے اور سنن ترمذی: 1124 کے بعد دیکھیے۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ: ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار ﻭالشغار ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺝ اﻟﺮﺟﻞ اﺑﻨﺘﻪ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻳﺰﻭﺟﻪ اﻵﺧﺮ اﺑﻨﺘﻪ، ﻟﻴﺲ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ ﺻﺪاﻕ
[صحيح البخارى: 5112]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﺪﺩ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار ﻗﻠﺖ ﻟﻨﺎﻓﻊ( هو تابعي جليل ثقة): ﻣﺎ الشغار؟ ﻗﺎﻝ: ﻳﻨﻜﺢ اﺑﻨﺔ اﻟﺮﺟﻞ ﻭﻳﻨﻜﺤﻪ اﺑﻨﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ، ﻭﻳﻨﻜﺢ ﺃﺧﺖ اﻟﺮﺟﻞ ﻭﻳﻨﻜﺤﻪ ﺃﺧﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﺾ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻥ اﺣﺘﺎﻝ ﺣﺘﻰ ﺗﺰﻭﺝ ﻋﻠﻰ الشغار ﻓﻬﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﻭاﻟﺸﺮﻁ ﺑﺎﻃﻞ
[صحيح البخارى: 6960]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻘﻌﻨﺒﻲ، ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﺣ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﺪﺩ ﺑﻦ ﻣﺴﺮﻫﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ، ﻛﻼﻫﻤﺎ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﻬﻰ ﻋﻦ الشغار. ﺯاﺩ ﻣﺴﺪﺩ، ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻗﻠﺖ ﻟﻨﺎﻓﻊ: ﻣﺎ الشغارﻗﺎﻝ: ﻳﻨﻜﺢ اﺑﻨﺔ اﻟﺮﺟﻞ، ﻭﻳﻨﻜﺤﻪ اﺑﻨﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ، ﻭﻳﻨﻜﺢ ﺃﺧﺖ اﻟﺮﺟﻞ، ﻭﻳﻨﻜﺤﻪ ﺃﺧﺘﻪ ﺑﻐﻴﺮ ﺻﺪاﻕ
[سنن أبو داود: 2074 سنده صحيح]

سیدنا معاویہ رضی الله عنہ نے نکاح شغار کے بارے سنا تو حدیث رسول لکھ کر بھیجی کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کروا دی جاے کہ یہ واضح نکاح شغار ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻷﻋﺮﺝ ﺑﻦ ﻫﺮﻣﺰ، ﺃﻥ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺃﻧﻜﺢ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ اﻟﺤﻜﻢ اﺑﻨﺘﻪ ﻭﺃﻧﻜﺤﻪ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﺑﻨﺘﻪ، ﻭﻗﺪ ﻛﺎﻧﺎ ﺟﻌﻼﻩ ﺻﺪاﻗﺎ، ﻓﻜﺘﺐ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻔﻴﺎﻥ ـ ﻭﻫﻮ ﺧﻠﻴﻔﺔ ـ ﺇﻟﻰ ﻣﺮﻭاﻥ ﻓﺄﻣﺮﻩ ﺑﺎﻟﺘﻔﺮﻳﻖ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ، ﻭﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ: ﻫﺬا اﻟﺸﻐﺎﺭ، ﻭﻗﺪ ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻨﻪ
[مسند أبي يعلى: 7370 سنده حسن لذاته لأجل محمد بن إسحاق]
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺜﻨﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺠﻮﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﻋﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻫﺮﻣﺰ اﻷﻋﺮﺝ، ﺃﻥ ﻋﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻧﻜﺢ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ اﻟﺤﻜﻢ اﺑﻨﺘﻪ، ﻭﺃﻧﻜﺤﻪ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﺑﻨﺘﻪ، ﻭﻗﺪ ﻛﺎﻧﺎ ﺟﻌﻼﻩ ﺻﺪاﻗﺎ، ﻓﻜﺘﺐ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﻭﻫﻮ ﺧﻠﻴﻔﺔ ﺇﻟﻰ ﻣﺮﻭاﻥ ﻳﺄﻣﺮﻩ ﺑﺎﻟﺘﻔﺮﻕ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ، ﻭﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ: ﻫﺬا اﻟﺸﻐﺎﺭ ﻗﺪ ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻨﻪ
[صحيح ابن حبان: 4153]
ﺫﻛﺮ ﻭﺻﻒ اﻟﺸﻐﺎﺭ اﻟﺬﻱ ﻧﻬﻲ ﻋﻦ اﺳﺘﻌﻤﺎﻟﻪ سنده حسن لذاته

فائدہ:
(1): سیدنا معاویہ رضی الله عنہ حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان رکھتے اور اسے حجت مانتے تھے۔
(2): سیدنا معاویہ رضی الله عنہ حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت پسند نہیں کرتے تھے۔
(3): سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کے امر بالمعروف و النھی عن المنکر کے ساتھ تمسک کی دلیل اس حدیث سے واضح ہے۔
(4): سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کی حدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے شدید محبت کا بیان
اس مسئلہ پر تفصیل کتب شروحات و فقہ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ