نکاح، ایک حسین بندھن

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔‘‘
(سنن ابن ماجہ : 1847 وسندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) فرماتے ہیں : هَذا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلى شَرْطِ مُسْلِمٍ. یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین : 2/ 154)
علامہ بوصیری رحمہ اللہ (840ھ) فرماتے ہیں : هَذا إسْناد صَحِيح رِجاله ثِقات ۔ یہ سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ (مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ : 2/ 94)
حافظ ضیاء مقدسی رحمہ اللہ (643ھ) نے اسے الأحاديث المختارہ (11/ 54) میں ذکر کیا ۔
نکاح محبت کا باعث
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح انسانوں میں محبت کے اضافے کا باعث ہے، دو اجنبی انسان جو آپس میں غیر متعارف ہوتے ہیں، نکاح انہیں محبت و ایثار کے بے مثال بندھن میں باندھ دیتا ہے، اسی امر کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا :

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔

’’اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں۔‘‘ (الروم : 21)
⇚شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ (1376ھ) فرماتے ہیں :
’’بیوی سے لذت تمتع، وجود اولاد کی منفعت، اولاد کی تربیت اور سکون حاصل ہوتا ہے اور جس طرح شوہر اور بیوی کے درمیان محبت والفت ہوتی ہے غالب حالات میں آپ کبھی دو افراد کے درمیان اتنی محبت و مودت نہیں پائیں گے۔‘‘
(تفسیر الکریم الرحمن، ص: 639)
⇚مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ (1995ء) لکھتے ہیں :
’’پھر ان زوجین (میاں، بیوی) میں اس قدر محبت رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے پر فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں اور پیدا ہونے والی اولاد کے حق میں دونوں شفیق اور رحیم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہی احساسات و جذبات ان دونوں میں اس حد تک پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے مقدس رشتہ ازدواج کو تازیست نباہنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر اللہ تعالی زوجین میں یہ جذبات و احساسات پیدا نہ کرتا تو کیا زمین کی آبادی یا نسل انسانی کی بقا ممکن تھی۔ اور کیا یہ کام اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ کرسکتا ہے؟ یا بے جان، بے شعور اور اندھے مادے کے اتفاقات سے یہ ممکن ہے کہ وہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کا لحاظ رکھ سکے؟۔‘‘
(تفسیر تیسیر القرآن، الروم : 21)
⇚مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ (2020ء) فرماتے ہیں :
’’مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔‘‘ (تفسیر احسن البیان، ایضا)
⇚مولانا عبد السلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
یعنی مرد عورت کی زوجیت میں سکون کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوستی اور رحمت رکھ دی ہے۔ دنیا میں عشق کی بے شمار داستانیں مشہور ہیں اور ہر طرف اسی کا شور اور ہنگامہ ہے، مگر حقیقی دوستی اور محبت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا ہوتی ہے، ناجائز عشق اور حرام محبت میں گرفتار لوگ اس کی بُو بھی نہیں پا سکتے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی نہیں کہ وہ مرد اور عورت جو ایک دوسرے سے پوری طرح واقف بھی نہیں ہوتے، نکاح کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے مودّت اور محبت کے ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جو زندگی بھر قائم رہتا اور دن بدن مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘(تفسیر القرآن الکریم ایضاً)
سسرالی رشتہ
نیز نکاح اس لحاظ سے بھی ذریعۂ محبت ہے کہ یہ باہمی محبت و الفت صرف زوجین پر مقتصر نہیں رہتی بلکہ دوسرے قرابت داروں کی طرف بھی متعدی ہوتی ہے، جب دو اجنبی اور انجان برادریوں کا کسی ایک نکاح کے ذریعے تعلق قائم ہوتا ہے تو اس کا اثر جانبین کے میل جول پر لازمی ہوتا ہے جو تادم حیات باقی رہتا ہے خوشیوں غمیوں کو سانجھا بنا دیتا ہے، اسی طرح بیوی کا خاوند کے والدین اور بہن بھائیوں سے محبت و احترام کا رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور خاوند کا بیوی کے والدین اور بہن بھائیوں سے، جو بسا اوقات سگے بہن بھائیوں کے مقام تک جا پہنچتا ہے۔
برائی سے بچنے کا حلال ذریعہ
اس حدیث کی تشریح میں علماء نے ایک دوسرے امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ اگر انسان کا خاص کسی طرف رجحان ہو جائے تو وہ گناہ وبرائی اور سفاحت و زنا کی بجائے، نکاح کو قرب کا ذریعہ بنائے جو پاکیزہ اور حلال راستہ ہے۔
⇚علامہ شرف الدین طیبی رحمہ اللہ (743ھ) فرماتے ہیں :

إِذَا نَظَرَ الرَّجُلُ إِلَى الْمَرْأَةِ الْـأَجْنَبِيَّةِ وَأَخَذَتْ بِمَجَامِعِ قَلْبِهِ فَنِكَاحُهَا يُوْرِثُ مَزِيْدَ الْمَحَبَّةِ، وَسَفَاحُهَا الْبُغْضَ وَالشَّنَآنَ.

’’جب آدمی کی کسی اجنبی عورت پر نظر پڑ جائے اور وہ اس کے دل کو بھا جائے تو اس سے نکاح کر لینا محبت میں اضافے کا باعث بنے گا، جبکہ زنا یا غلط کاری، بغض و دشمنی کا باعث بنے گی۔‘‘ (شرح مشکاۃ : 7/ 2265)
مرضِ عشق کا علاج
اسی طرح (اللہ محفوظ فرمائے) اگر کوئی مرضِ عشق میں مبتلا ہو جائے تو ایسی صورت میں نکاح ہی بہترین حل ہے۔
⇚شیخ الاسلام ابن القیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں :

فَنِكَاحُ الْمَعْشُوْقَةِ هُوَ دَوَاءُ الْعِشْقِ الَّذِي جَعَلَهُ اللهُ دَوَاءَهُ شَرْعًا وَقَدْرًا.

’’معشوقہ سے نکاح کر لینا ہی عشق کا علاج ہے، اللہ تعالی نے شرعا اور فطرتاً اس مرض کی یہی دواء بنائی ہے۔‘‘ (الجواب الکافی،ص : 554)
⇚حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں :

فَأمّا مَنِ ابْتُلِيَ بِالهَوى فَأرادَ التَّزْوِيجَ فَلْيَجْتَهِدْ فِي نِكاحِ المَرْأةِ الَّتِي ابْتُلِيَ بِها إنْ صَحَّ لَهُ ذَلِكَ وجازَ وإلا فَلْيَخْتَرْ ما يَظُنُّهُ مُسَلِّيًا لَهُ عَنْ ذَلِكَ وهُوَ ما يَقَعُ بِقَلْبِهِ عِنْدَ رُؤْيَتِهِ وعَلامَةُ ذَلِكَ أنَّهُ إذا رَأى الشَّخْصَ تَشَبَّثَ بِقَلْبِهِ وجَمُدَ نَظَرُهُ عَلَيْهِ….

”جو عشق میں مبتلا ہو، تو اسے چاہیے کہ ہر ممکن و جائز طریقے سے اسی عورت سے نکاح کرنے کی کوشش کرے، جس کی محبت میں گرفتار ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو ایسی عورت دیکھے جس کے متعلق گمان ہو کہ وہ زخمِ عشق کے مندمل ہونے کا سبب بن سکے گی؛ اور اس کی علامت یہ ہے کہ اُس پر نظر پڑتے ہی دل اٹک جائے اور آنکھ ٹھہر جائے …“
(ذم الهوى : 284، ترجمہ از عبد العزيز ناصر)
⇚مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ (2021ء) فرماتے ہیں :
’’عشق چونکہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے۔ اس لیے اس کا علاج بہرحال ہونا چاہیے۔ اس کے علاج کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک طریقۂ علاج یہ ہے کہ اگر عاشق کو وصالِ محبوب کی کوئی صورت میسر آجائے خواہ یہ شرعاً ہو یا خوش قسمتی سے ایسے مقدر ہو تو یہی وصال ہی اس کا علاج ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے: رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے گروہِ نوجوانان! تم میں سے جس کو جماع کی طاقت ہو اسے شادی کر لینی چاہیے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزہ رکھے اس لیے کہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔‘‘ حدیث ہذا میں عاشق کے لیے دو طریقہ علاج بتلائے گئے ہیں۔ ایک اصلی اور دوسرا مکافاتی آپ نے اس میں علاج اصلی کی ہدایت فرمائی ہے اور یہی علاج اس بیماری کے لیے قدرتی طور پر وضع ہوا ہے اس لیے کسی دوسرے علاج کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے۔ جب کہ مریض یہ علاج کر سکتا ہو۔‘‘ (فتاوی ثنائیہ مدنیہ : 4/ 142)
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض اوقات والدین ایسے نکاح میں باعثِ رکاوٹ بنتے ہیں، حالانکہ ایسے معزز والدین کو اس پہلو پر بھی سوچنا چاہیے کہ آپ کے پاس بچے کے بچپن اور لڑکپن کا وقت حقِ تربیت ہوتا ہے، اس میں اولاد کی تربیت ایسی کریں کہ وہ رشتے وغیرہ کے معاملات میں آپ پر اعتماد کریں اور آپ کی پسند کو اپنی پسند تسلیم کر لیں، بلا وجہ نامحرموں کی طرف تانک جھانک سے باز رہیں، خوفِ الہی اور محبتِ خداوندی سے سرشار رہیں، لیکن اگر آپ بر وقت تربیت میں کامیاب نہیں رہے تو جب اولاد کسی جگہ دل لگا بیٹھے اور اپنی زبان سے خواہش کا اظہار کر دے تو اپنی اَنا، ہٹ دھرمی، برادری کا منہ اور بناوٹی غیرت جیسے بہانوں کا سہارا لے کر اپنی تربیتی ناکامی کا غبار نکالنے کی بجائے ان کی مرضی سے شادی کر دیں، کیوں کہ معاملات حد سے تجاوز کر جائیں تو یہی طریقہء علاج ہے وگرنہ ساری زندگی مشکلات و بکھیڑے پڑے رہتے، جیسا کہ اوپر علماء کی تصریحات گزر چکی ہیں ۔
نسأل الله السلامة والعافية۔
(ہم اپنے اللہ سے سلامتی و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔)

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پرھیں: اے ہمارے رب! روزِ قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا